السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم الشیخ!مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے ایک روایت جو حنفی(اور) بریلوی حضرات پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے جابر اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا۔۔۔"
اس روایت کے بارے میں علمائے اہل حدیث کا کہنا ہے کہ یہ روایت نہ مصنف عبدالرزاق میں ہے اور نہ تفسیر عبدالرزاق میں ہے۔
ہمارے ضلع گجرات سے ایک رسالہ"اہلسنت"بریلویوں کا شائع ہوتا ہے اس رسالے میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حدیث جابر ہمیں مل گئی ہے اور لکھا ہے کہ یہ نسخہ جس میں یہ روایت موجود ہے افغانستان سے دستیاب ہوا ہے کیا افغانستان والا نسخہ ہے یا یہ حنفیوں کے ہاتھ کا کمال(اور ہاتھ کی صفائی) ہے کیونکہ حنفیوں نے اپنے مقاصد کےلیے قرآن وحدیث میں تحریف کررکھی ہے اور اس رسالے کے سرورق پر لکھا ہوا ہے کہ:
("حدیث نور" کامخطوطہ دریافت کرلیا گیا)
ان الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے پہلے یہ دریافت نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تازہ تازہ مارکیٹ میں آیا ہےالشیخ! آپ براہ مہربانی اس کی تحقیق کریں اور اصل حقائق سے لوگوں کو روشناس کریں۔(جزاکم اللہ خیرا)
میں آپ کو"اہلسنت" رسالہ بھی رہا ہوں اس کے صفحہ 3 پر یہ مضمون موجود ہے۔(خرم ارشاد محمدی ،دولت نگر ،گجرات)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا جواب ایک تحقیقی مقالے کی صورت میں پیش خدمت ہے:
الحمدللہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین،اما بعد:
قرآن مجید،اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو اس نے اپنے بندے اور رسول:محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اور سینوں میں بعینہ ،من وعن محفوظ ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ من وعن اور بعینہ محفوظ ہیں۔ان دونوں کتابوں کی صحت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
دیکھئے علوم الحدیث لابن الصلاح(ص 41،42) واختصار علوم الحدیث(ص 124،128)
شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی فرماتے ہیں:"صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواترپہنچی ہیں،جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے"(حجۃ اللہ البالغۃ اردو:1/242 مترجم :عبدالحق حقانی)
ان تینوں کتابوں کے علاوہ دنیا کی کسی کتاب سے بھی استدلال کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
1۔صاحب کتاب ثقہ وصدوق ہو،مثلاً امام ابوداود(صاحب السنن) امام ترمذی(صاحب الجامع) امام نسائی(صاحب المجتبیٰ والکبریٰ) امام ابن ماجہ(صاحب السنن) امام مالک (صاحب الموطا)وغیرہم ثقہ بلکہ فوق الثقہ تھے۔
اگرصاحب کتاب ثقہ وصدوق نہ ہو بلکہ مجروح ومجہول اور ساقط العدالت ہوتو اس کی کتاب سے استدلال باطل ہوجاتا ہے۔مثلاً احمد بن مروان بن محمد الدینوری صاحب "المجالسة وجواهرالعلم"(یضع الحدیث:لسان المیزان 1/309 وثقہ مسلمۃ ومسلمۃ مجروح) الدولابی صاحب الکنی(ضعیف) محمد بن الحسن الشیبانی صاحب الموطا(کذاب بقول ابن معین) ابو جعفر الکلینی صاحب الکافی(رافضی غیر موثق) یہ سب ساقط العدالت تھے لہذا ان کی کتابوں سے استدلال مردود ہے۔
2۔کتاب کے مخطوطےکا ناسخ وکاتب:ثقہ وصدوق ہو۔
حافظ ابن الصلاح الشہر زوری فرماتے ہیں:
"وهو ان يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل بل صحيح النقل قليل السقط"
اور(تیسری) شرط یہ ہے کہ اصل کتاب سے نسخے کا ناقل(کاتب وناسخ) غلط نقل کرنے والا نہ ہو،بلکہ صحیح نقل کرنے اور کم غلطیاں کرنے والا ہو۔(علم الحدیث لابن الصلاح ص 303 ،نوع:25)
اس شرط سے معلوم ہوا کہ اگر کتاب کا کاتب غیر ثقہ یا مجہول ہو تو اس کتاب سے استدلال جائز نہیں ہے۔
حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی کی تحقیق سے چھپی ہوئی مسند الحمیدی کے مخطوطے (مخطوطہ دیوبند نوشتہ 1324ھ) اور نسخہ سعدیہ(نوشتہ 1311ھ) کے کاتبین کا ثقہ وصدوق ہونا نا معلوم ہے،ان کےنسخوں کے مطالعے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات کثیر الغلط ہیں۔مسند حمیدی للاعظمی کے نسخے کا کوئی سا بھی صفحہ نکالیں،غلطیوں اور تصاحیف سےبھرا ہوا ہے،مثلاً :ص1 پر لکھا ہوا ہے کہ "في الأصل يزيد ، والصواب زيد" یعنی اس نسخے کی ابتداء ہی غلط ہے۔ایک جگہ اعظمی صاحب خود لکھتے ہیں:
"في الاصل تقوت وهي معرفة"
(مسند الحمیدی 1/15تحت ح24)
یعنی اصل میں"تقوت" کا لفظ محرف ہے ،تحریف ہوگئی ہے۔
عرض ہے کہ ایسی محرف کتابوں سے وہی لوگ استدلال کرتے ہیں جو تحریفات واکاذیب سے محبت رکھتے ہیں۔
3۔ناسخ مخطوطہ سے صاحب کتاب تک سند صحیح ہو،مثلاً:
ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب"اصول الدین"کی سند،صاحب مخطوطہ سے لے کر ابن ابی حاتم تک صحیح ہے۔(دیکھئے الحدیث حضرو،ج1 شمارہ :2 ص41)
جبکہ شرح السنہ للبربہاری کی سند میں دوراوی مجروح ہیں:
اول:غلام خلیل کذاب ہے۔(ماہنامہ الحدیث شمارہ:2ص 25)
دوم:قاضی احمد بن کامل متساہل(ضعیف) ہے۔(ایضاً ص25)
لہذا اس کتاب(شرح السنہ للبربہاری :مطبوع ومخطوط) سے استدلال صحیح نہیں ہے۔
4۔مخطوطہ(کتاب کے قلمی نسخے) کا محل وقوع،خط،تاریخ نسخ پہچاننا اور قدامت کی تحقیق ضروری ہے،جو نسخہ پرانا اور قلیل الغلط ہو،اسے بعد والےتمام نسخوں پر فوقیت حاصل ہے۔
5۔نسخہ پر علمائے کرام اور ائمہ دین کے سماعات ہوں،مثلاً مسند حمیدی کا مخطوطہ ظاہر یہ،نسخہ دیوبندیہ ونسخہ،سعید یہ سے قدیم ترین(نوشتہ 689ھ) ہے اور اس پر جلیل القدر علماء کے سماعات بھی ہیں،اور قلیل الغلط بھی ہے لہذا اسے دونوں (دیوبندیہ وسعیدیہ) پر فوقت حاصل ہے۔
(سماع کی جمع سماعات ہے۔جب ایک قلمی نسخہ علماء کرام خود پڑھتے یا انھیں سنایا جاتا تو وہ اس پر لکھ دیتے تھے کہ یہ فلاں فلاں نے پڑھایا سنا ہے ،اسے سماعات کہتے ہیں۔)
6۔نسخہ علماء کے درمیان مشہور ہو۔
آج اگر کوئی شخص افغانستان ،قزاقستان،گرجستان وغیرہ کے کسی کو نے کھدرے سے خود ساختہ نسخہ پیش کرکے شور مچانا شروع کردے کہ مخطوطہ مل گیا ہے تو علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
7۔اس کتاب کے دیگر نسخوں کو مد نظر رکھا جائے،مثلاً قاسم بن قطوبغا(کذاب) نے مصنف ابن ابی شیبہ کے ایک(نامعلوم) نسخہ سے"تحت السرہ"کے اضافے والی حدیث نقل کی ہے جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دیگر نسخوں میں یہ اضافہ قطعاً موجود نہیں ہے۔
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب ایک اصول سمجھاتے ہیں:
اگر ایک عبارت بعض نسخوں میں ہو اور بعض میں نہ ہوتو:
"فعلى هذا هذه العبارة مشكوك فيها"
"اس طرح سے یہ عبارت مشکوک ہوجاتی ہے۔(بذل المجھود 4/471تحت ح:748)
8۔اس کتاب کی عبارات وروایات کا ان کتابوں سے مقارنہ کیا جائے جن میں اس کتاب سے روایت یانقل موجود ہو،مثلاً سنن ابی داود کی احادیث کا السنن الکبری للبیہقی میں احادیث ابی داود سے مقارنہ ومقابلہ کیا جائے۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ امام ابوداود سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔
9۔یہ بھی شرط ہے کہ علمائے کرام اور محدثین عظام نے نسخہ مذکورہ پر طعن وجرح نہ کی ہو۔
10۔صاحب کتاب سے اگرکتاب صحیح وثابت ہوتو پھر بھی یہ شرط ضروری ہے:
صاحب کتب سے لے کر صاحب قول یا صاحب روایت تک سند صحیح یا حسن لذاتہ ہو۔اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوتو اس کتاب کی روایت سے استدلال کرناباطل ومردود ہوجاتا ہے۔
تنبیہ:محمد محب اللہ نوری بریلوی نےدعویٰ کیا ہے:
"حال ہی میں فضیلۃالشیخ عیسیٰ مانع(سابق منسٹراوقاف دبئی) اور اہلسنت کے نام اور عالم دین اور محقق حضرت علامہ محمد عباس رضوی کی جستجو سے"مصنف عبدالرزاق" کا مخطوطہ افغانستان سے دستیاب ہوا ہے،جس میں"تخلیق نور محمدی" پر مستقل باب موجود ہے اور اس میں"حدیث جابر" کم وبیش پانچ سندوں کے ساتھ درج ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی اشاعتی ادارہ اس مخطوطہ کی شایان شان اشاعت کا اہتمام کردے"
(ماہنامہ اہلسنت گجرات ،اگست 2003ء ص 4)
عرض ہے کہ بریلوی ودیوبندی دونوں گروہ،اہلسنت نہیں ہیں،ان کے اصول وعقائد اہل سنت سے مختلف ہیں۔
بریلوی ودیوبندی حضرات حنفی بھی نہیں ہیں۔
مصنف عبدالرزاق کے اس نو دریافت شدہ مخطوطے سے استدلال اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب اس میں درج ذیل شرائط موجود ہوں:
1۔ناسخ مخطوطہ ثقہ وصدوق ہو۔
2۔اس بات کا ثبوت ہو کہ یہ مخطوطہ واقعی اسی ناسخ نے لکھا ہے۔
3۔صاحب ناسخ مخطوطہ سے لے کر امام عبدالرزاق تک سند صحیح وحسن ہو۔
4۔امام عبدالرزاق سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صاحب قول تک سند صحیح وحسن ہو۔
5۔اس مخطوطے میں وہ تمام شرائط موجود ہوں جن کا تذکرہ،اس مضمون میں کیاگیا ہے۔
آخر میں دو من گھڑت ،موضوع اور باطل کتابوں کا ذکرپیش خدمت ہے جو دو مشہور اماموں کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔حالانکہ یہ دونوں امام ان دوکتابوں سے بری ہیں۔
1۔فقہ الاکبر،المنسوب الی الامام الشافعی رحمۃ اللہ علیہ
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف"الفقہ الاکبر" کے نام سے ایک کتاب منسوب کی گئی ہے جسے "الکوکب الازھر شرح الفقہ الاکبر"کے نام سے مصطفیٰ احمد الباز نے"المکتبۃ التجاریہ مکہ مکرمہ"سعودی عرب سے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کے موضوع و من گھڑت ہونے کے چند دلائل درج ذیل ہیں:
1:اس کا ناسخ(کاتب) نا معلوم ہے۔
2۔ناسخ سے لے کر امام شافعی تک سند نا معلوم ہے۔
3۔مصطفیٰ الباز والے نسخے میں اس کتاب کے نسخوں کا تعارف مختصراً درج ذیل ہے:
1۔مطبوعہ 1900ء
ب۔نسخہ محمد بن عبداللہ بن احمد الراوی(مجہول) جدید دور کا لکھا ہوا؟
ج۔شہاب الدین بن احمد بن مصلح البصری ،متوفی 986ھ(؟) کالکھا ہوا نسخہ؟
د۔احمد بن الشیخ درویش الخطیب کا لکھا ہوا(جدید) نسخہ؟
ھ۔غیر مسلم:کارل بروکلی نے اس کتاب کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ سب نسخے بے اصل اور مردود ہیں۔
حاجی خلیفہ صاحب لکھتے ہیں:
"لكن في نسبته إلى الشافعي شك، والظن الغالب أنه من تأليف بعض أكابر العلماء"
"لیکن(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف) اس(کی نسبت) میں شک ہے اور ظن غالب یہی ہے کہ یہ بعض اکابر علماء کی تصنیف ہے۔(کشف الظنون 2/1288)
یہ اکابر علماء کا بعض :مجہول ہے۔
مشہور عربی محقق ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان لکھتے ہیں:
"الفقه الأكبر " المكذوب على الإمام محمد بن إدريس الشافعي"
"الفقہ الاکبر،امام شافعی پر مکذوب(جھوٹ) ہے۔(کتب حذر منھا العلماء2/293)
شیخ صالح المقبلی نے بھی اس کتاب کے تصنیف الشافعی ہونے کا انکار کیا ہے۔دیکھئے العلم الشامخ فی ایثار الحق علی الاآبادء والمشائخ"(ص180)
4۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں اور متقدمین مثلاً امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ،نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
الکوکب الازھر شرح الفقہ الاکبر،المکذوب علی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ میں لکھا ہوا ہے کہ:
"لا يكفي إيمان المقلد"
اور(عقائدواصول دین میں) مقلد کا ایمان کافی نہیں ہے۔(ص42)
2۔الفقہ الاکبر المنسوب الی الامام ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
ملا علی قاری کی شرح کے ساتھ الفقہ الاکبر کا جونسخہ مطبوعہ ہے اس کے شروع میں نسخے کے راوی،ناسخ اور ناسخ سے امام ابوحنیفہ تک کوئی سند موجود نہیں ہے ۔حاجی خلیفہ نے لکھا ہے کہ أبو مطيع البلخي ... وروى عنه اسے(امام ابوحنیفہ سے) ابو مطیع البلخی نے روایت کیا ہے۔(کشف الظنون 2/1287)
ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔اسے ابن معین،بخاری اور نسائی(کتاب الضعفاء والمتروکین :654) وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے۔
ایک حدیث کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"
"فهذا وضعه أبو مطيع على حماد"
اسے ابو مطیع نے حماد(بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔(میزان الاعتدال 3/42ت 5523)
یعنی ابو مطیع وضاع(حدیثیں گھڑنے والاتھا) ابومطیع سے نیچے،اس نسخے کی سند نا معلوم ہے۔
ایک ملاصاحب نے اس کتاب کی ایک دوسری سند فٹ کررکھی ہے۔(دیکھئے مجموعۃ الرسائل العشرۃ ص17)
اس سند میں بہت سے راوی مجہول ،غیر معروف اور نا معلوم التوثیق ہیں،مثلاً:
نصر بن یحییٰ البلخی ،علی بن احمد الفارسی،علی بن الحسین الغزالی،نصر ان بن نصر الحثلی اور حسین بن الحسین الکاشغری وغیرہم۔
اس سند کا بنیادی راوی:ملاصاحب بذات خود مجہول ہے۔
خلاصہ یہ کہ سند بھی موضوع وباطل ہے۔
اس موضوع رسالے"الفقہ الاکبر"میں لکھا ہوا ہے:
"وقال الإمام أبو حنيفة رحمه الله: (فما ذكره الله تعالى في القرآن من ذكر الوجه، واليد، والنفس، فهو له صفات بلا كيف، ولا يقال إن يده قدرته أو نعمته، لأن فيه إبطال الصفة، وهو قول أهل القدر والاعتزال، ولكن يده صفة بلا كيف، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته (تعالى) بلا كيف("
"پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وجہ(چہرہ)یہ(ہاتھ) اور نفس(جان) کا جو ذکر کیا ہے وہ اس کی بلاکیف صفتیں ہیں اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کا ہاتھ اس کی قدرت اور نعمت ہے کیونکہ اس(طرح کہنے) میں صفت کا ابطال ہے اور یہ قول قدریوں اور معتزلہ کاہے،لیکن(کہنا یہ چاہیے کہ) اس (اللہ) کا ہاتھ اس کی صفت ہے بلاکیف"(ص19 اومع شرح القاری ص36،37)
اس کے برخلاف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے:
"مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد(قدرت) تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔"(المہند ص 42 جواب سوال:13،14 بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم ص18)
معلوم ہوا کہ اس کتاب(الفقہ الاکبر) کے مطابق دیوبندی حضرات معتزلہ کے مذہب پر ہیں۔
3۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کتاب"الصلوٰۃ"ان سے ثابت نہیں ہے۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وكتاب الرسالة في الصلاة قلت (أي الذهبي) هو موضوع على الامام "
"یعنی یہ کتاب موضوع(اور من گھڑت) طور پر امام(احمد) کی طرف منسوب کردی گئی ہے۔(سیر اعلام النبلاء11/330)
نماز نبوی کے مقدمۃ التحقیق(ص 18) میں"اور امام احمد بن محمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 241) کی کتاب الصلوۃ وغیرہ" کے الفاظ مکتبہ دارالسلام والوں کی غلطی کی وجہ سے چھپ گئے ہیں۔ میں اس عبارت سے بری ہوں ،مدیر مکتبہ دارالسلام نے اس عبارت مذکورہ کے بارے میں اپنے پیڈ پر لکھ کردیا کہ:
"تسامح کی وجہ سے چھپ گئی ہے۔ جس پر ادارہ مقدمۃ التحقیق کے مولف سے معذرت خواہ ہے،عبدالعظیم اسد،دارالسلام لاہور 2000/8/18"
اس معذرت نامہ کی اصل میرے پاس محفوظ ہے۔
جدید ایڈیشن میں"ادارہ دارلسلام" نے اس تسامح کی تصیح کردی ہے یعنی اس عبارت کو حذف کردیا گیا ہے۔
4۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (کے مذہب) کی طرف منسوب"المدونۃ الکبریٰ"غیر مستند کتاب ہے۔دیکھئے میری کتاب"القول المتین فی الجھر بالتامین"(ص 73) وسیر اعلام النبلاء (14/206) والعبر فی خبرمن غبر(2/122) (الحدیث:5)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب