سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) کذبات ثلاثہ والی حدیث کا مفہوم

  • 20920
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2779

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزارش ہے کہ کچھ دنوں سے ہماری سکول کلاس میں(صحیح) بخاری کی حدیث کذبات ابراہیم علیہ السلام   کا بہت چرچا ہورہا ہے۔لوگ کہتے ہیں قرآن کریم میں  آپ کو "صِدِّيقًا نَّبِيًّا" کہا گیا ہے اور حدیث میں آپ کی طرف جھوٹ منسو ب ہوا ہے،اس لیے یہ اس بخاری  کو نہیں مانتے اور اسی وجہ سے یہ کتاب اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ نہیں رکھتی۔اس کےمتعلق آپ بالوضاحت مضمون لکھیں۔آپ کی خدمت میں ایک گزارش ہے براہ کرم اس کام کو جلد سرانجام دیں۔اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے۔) (محمد ارسلان ستار،راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کذبات ابراہیم علیہ السلام والی حدیث،مختلف الفاظ کے ساتھ درج ذیل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے:

1۔سیدنا  ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

2۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

3۔سیدنا ابوسعیدالخدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث درج ذیل تابعین رحمۃ اللہ علیہ   سے مروی ہے:

1۔محمد بن سیرین البصری (ثقہ ثبت عابد کبیر القدر،توفی 110ھ/تقریب التہذیب :5947 ملخصاً)

2۔عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج (ثقہ ثبت عالم،توفی:117ھ/التقریب:4033)

3۔ابوزرعہ بن عمرو بن جریر (ثقہ/التقریب:8103)

محمد بن سیرین سے درج ذیل راویوں نے یہ حدیث بیان کی ہے:

1۔ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی  (ثقہ ثبت حجۃ،توفی 131ھ/التقریب:605)

صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء  باب 8ح 3357 وصحیح مسلم ،کتاب الفضائل باب 41ح(6145)154/2371)

2۔ہشام بن حسان البصری

(ثقہ الخ توفی 147،148ھ/التقریب:7289 والنظر طبقات المدلسین 110/3)

ابو داود فی سنۃ(2212) والنسائی فی السنن الکبریٰ(5/98 ح8374 والنسخۃ المحققہ 7/396ح8316)وابن حبان فی صحیحہ(الاحسان:7/495)ح5707 والنسخۃ المحققہ 13/45۔47ح5737)وابن جریر الطبری فی تفسیرہ(23/45) وابویعلی فی مسندہ (6039)

عبدالرحمان بن ہرمزالاعرج سے درج ذیل راوی نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

1۔ابوالزناد:۔

(عبداللہ بن ذکوان المدنی،ثقہ فقیہ توفی 130ھ  اوبعدھا۔التقریب:3302)احمد فی مسندہ۔2۔403 ح 9230 والنسخۃ المحققہ(134ح9241)والترمذی (3166) وقال:"حسن صحیح"والطبری فی تفسیرہ(23،45وسندہ حسن) ورواہ البخاری (2217) مختصراً جداً۔

ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے درج ذیل راوی نے یہ حدیث بیان کی ہے:

1۔ابوحیان التمیمی الکوفی۔(ثقہ عابد،توفی 141ھ/التقریب:7555)

البخاری فی صحیحہ(3361،4712) ومسلم فی صحیحہ(480)(327۔194)وعبداللہ بن الممبارک المروزی فی مسندہ(110) واحمد فی مسندہ(2،435،436ح9621 والنسخۃ المحققہ 15/384۔ ح9623وسندہ صحیح) والنسائی فی  الکبریٰ(6،378،379 ح 11286والمحققہ 10/148۔150ح11222)وابن خذیمہ فی کتاب التوحید(ص 242۔244 والمحققہ 2۔592ح347)وابن ابی شیبہ فی المصنف11۔444۔ح۔31665) والترمذی (2434) وقال:ھذا حدیث حسن  صحیح) وابوعوانہ فی صحیحہ(المستخرج علی صحیح مسلم 1/170۔174)

سيدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے درج ذیل راوی نے یہ حدیث بیان کی ہے:

1۔قتادہ بن وعامہ البصری :۔

(ثقہ ثبت،توفی 111تا119ھ النظر التقریب:5518)

النسائی فی الکبریٰ:۔

(6/،441ح11433والمحققہ 10/232ح11369وسندہ حسن وقتادہ صرح بالسماع)

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

الترمذی(18/3148 وقال :حسن)وابویعلی فی مسندہ(2/310 ح1040)

تنبیہ:۔

یہ روایت علی بن زید بن جدعان کے ضعف(ضعیف ہونے) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

احمد فی مسندہ(1/281،282 ح2546،1/295،296 والمحققہ 4/330۔232ح 2546،4/429ح2692)

 وابوداودالطیالسی فی مسندہ(2711،ومنحۃ المعبود 2/226،227ح2798)

تنبیہ:۔

اس روایت کی سند ضعیف ہے۔اس کا ایک راوی علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب :2734)

موقوف روایات:۔

1۔سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

صحیح البخاری(3358)والنسائی فی الکبریٰ(5/98،99 ح8375والمحققہ 7/397 ح 8317وسندہ صحیح) والطبری فی تفسیرہ(23۔45)

آثار التابعین :۔

1۔محمد بن سیرین ۔

الطبری فی تفسیرہ(23/45 و سندہ صحیح)

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ کذبات ابراہیم علیہ السلام   والی حدیث،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بذریعہ دو صحابیوں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سید انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ثابت ہے۔

اسے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ امام مسلم،امام ترمذی،امام ابن حبان،امام ابوعوانہ وغیرہم نے بھی صحیح قراردیاہے۔رحمہم اللہ اجمعین۔

یہ حدیث امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش:194ھ وفات:256ھ) کی پیدائش سے پہلے امام عبداللہ بن المبارک  رحمۃ اللہ علیہ (وفات:181ھ) نے بیان کررکھی ہے۔ان کے علاوہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے استادوں مثلاً امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  ،امام ابن ابی شیبہ ،معاصرین مثلاً امام ابوداود وغیرہ اور بعد والے محدثین نے بھی روایت کیا ہے۔

کسی محدث نے اس حدیث پر جرح نہیں کی اور نہ کسی سے اس کاانکار ثابت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ،صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی یہی روایت ثابت ہے،اس صحیح ر وایت کامفہوم صرف یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم  علیہ السلام   نے تین مقامات پر توریہ فرمایاتھا،جسے تعریض بھی کہتے ہیں۔اورایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔اس توریہ کو حدیث میں کذبات کہا گیا ہے۔اہل حجاز کی لغت میں توریہ کو کذاب بھی کہتے ہیں۔دیکھئے فتح الباری (ج6 ص 391 تحت ح 3358)وتفسیر ابن کثیر(5/349سورۃ الصافات:89)وشروح احادیث وکتب لغت وغیرہ۔(30/ذوالحجہ 1425ھ)(الحدیث:10)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ111

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ