السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَنَا زَعِيمُ بَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا"
"میں اس جنت کے گردونواح میں اس آدمی کے لیے گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو بحث وجدال چھوڑ دے اگرچہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔(سنن ابی داود،کتاب الادب ،باب فی حسن خلق :4800 وسندہ حسن)
جب سے یہ حدیث پڑھی ہے ذہن بہت اُلجھ گیا،میرے سارے کلاس فیلو حنفی ہیں ان سے بڑی گرماگرم بحثیں ہوتی ہیں اور میں ہمیشہ قرآن وحدیث کے دلائل سے ان کو لاجواب کردیتا ہوں مگر جب سے میں نے یہ حدیث ان کو سنائی ہے وہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث تیرے جیسے بندے کے لیے کہی ہے۔کیوں کہ تو بحثیں بہت کرتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ اگر ایک شخص شرک وبدعت کی تبلیغ کررہا ہےتو اس پر حق واضح کردینا چاہیے اور ظاہری بات ہے کہ بحث تو ہوگی ایک دو باتوں سے تو وہ مطمئن نہ ہوگا۔اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ "
"اور ان سے احسن طریقے سے بحث وجدال کیجئے"
اس لیے اگر ایک شخص قرآن وحدیث کو توڑ موڑ کر پیش کرتا ہے اور شریک وبدعت کی توثیق میں ان کی من مانی تاویلات کرتا ہے تو اس پر دلائل کے ذریعے سے بحث کرکے اتمام حجت کردینی چاہیے۔اور پھر علماء کا اختلافی مسائل پر بحث کرنا کس ضمن میں آتا ہے۔بس آپ ذرا مجھےسمجھائیں۔(حافظ عاطف منظور،فتح ٹاؤن اوکاڑہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لغت میں"المراء" کا مطلب ہے :"جھگڑا ،کٹ حجتی،بحث"(القاموس الوحید ص 1546)
علامہ ابن الاثیر(متوفی 606ھ) لکھتے ہیں:
"المراء: الجدال. والتماري والمماراة: المجادلة على مذهب الشكِّ والريبة"
مراء جھگڑے کو کہتے ہیں اور تماری،مماراۃ کا معنی یہ ہے کہ شک وشبہ کی بنیاد پر جھگڑا کیاجائے۔(النہایۃ فی غریب الحدیث ج 4ص 322)
معلوم ہوا کہ حدیث مذکور میں احکام واختلافی مسائل پر دعوت وتحقیق کے لیے بحث ومباحثہ مراد نہیں ہے،علامہ ابن اثیر مزید لکھتے ہیں:
"وقيل إنما جاء هذا في الجدال والمراء في الآيات التي فيها ذكر القدر ونحوه من المعاني على مذهب أهل الكلام وأصحاب الأهواء والآراء دون ما تضمنته من الأحكام وأبواب الحلال والحرام فإن ذلك قد جرى بين الصحابة فمن بعدهم من العلماء وذلك فيما يكون الغرض منه والباعث عليه ظهور الحق ليتبع دون الغلبة والتعجيز"
"اورکہا گیا ہے کہ اس حدیث(لاتماروافی القرآن الخ) سےمراد،تقدیر وغیرہ کے مسائل میں آیات کریمہ میں ،اہلِ کلام،اہل بدعت اور اہل رائے کی طرح جگھڑا کرناہے۔اس سے احکام اور حلال وحرام والے مباحث مراد نہیں ہیں کیونکہ یہ بحثیں(اور مناظرے) تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بعد والے علماء کے درمیان ہوئے ہیں،ان کی غرض وغایت یہ تھی کہ حق واضح ہوجائے تا کہ حق کی اتباع کی جائے،ان سے مخالف پرمجرد غلبہ یا عاجز کرنا مراد نہیں تھا۔واللہ اعلم۔(النہایۃ 4/322)
"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ "
"اور ان سے احسن طریقے سے بحث وجدال کیجئے"(النحل:125) جائز مناظرے کے جوازکی دلیل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
"بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً.....الخ "
"مجھ سے(دین لے کر) لوگوں تک پہنچا دو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح البخاری :3461)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک ایک کافر سے مناظرہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔(سورۃ البقرۃ:258)
مستدرک الحاکم(2/593،594 ح4157) میں نجران کے عیسائیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ومباحثہ مذکور ہے۔(وصححہ الحاکم علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی)
صحیح بخاری میں ایک فقہی مسئلے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مناظرہ موجودہے۔(345،346)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خوارج سے مناظرہ کرنا ثابت ہے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 8،179 وسندہ حسن)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم لم يكن أعطى الإسلام حقه، ولا وفَّى بموجب العلم والإيمان، ولا حصل بكلامه شفاء الصدور، وطمأنينة النفوس، ولا أفاد كلامه العلم واليقين"
"پس ہر شخص جو ملحدین ومبتدعین سے(عالم ہونے کے باوجود) بنیاد کاٹ دینے والا مناظرہ نہ کرے تو اس نے اسلام کا حق ادا نہیں کیا اور نہ علم وایمان کا تقاضاپوراکیاہے۔اس کے کلام سے دلوں کی شفا اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور نہ اس کا کلام علم ویقین کا فائدہ دیتاہے۔(درء تعارض العقل والعقل ج1 ص 357)
معلوم ہوا کہ اہل باطل اور لا علم لوگوں کو کتاب وسنت کے دلائل سناکر حق واضح کرنا دین کی بہت بڑی خدمت ہے (6۔2۔2005ء) (الحدیث:10)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب