السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں:"(واقعہ معراج میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک مفقود نہیں ہوا لیکن اللہ آپ کی روح کو لے گیا۔"
(تفسیر ابن جریر طبری 9/16 بحوالہ معراج اور اُس کے مشاہدات ،حافظ صلاح الدین یوسف طبع دارالسلام ص 32)
پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ روای صحیح ہے؟اوراگریہ روایت صحیح ہے تو کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صرف روحانی طور پر معراج کی قائل تھیں؟(شعیب محمد،سیالکوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت مذکورہ تفسیر ابن جریرالطہری میں درج ذیل سند ومتن سے مذکور ہے:
"هذا الأثر رواه محمد بن إسحاق قال : حَدَّثَنِي بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَقُولُ: " مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِرُوحِهِ"
"ہمیں (محمد)بن حمید(الرازی)نےحدیث بیان کی،کہا:ہمیں سلمہ(بن الفضل الابرش)نے حدیث بیان کی،وہ محمد(بن اسحاق بن یسار) سے بیان کرتے ہیں ،کہا:مجھے آل ابی بکر میں سے بعض نے بتایا کہ(سیدہ) عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) فرماتی تھیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجسم(مبارک) غائب نہیں ہوا(تھا) لیکن اللہ نے آپ کو روحانی معراج کرائی"(ج15ص13)
یہ روایت اُصول حدیث کی رُو سے ضعیف ومردود ہے۔اس میں بعض آل ابی بکر راوی مجہول محض ہے،اس کاکوئی اتاپتا معلوم نہیں ہے۔ایسے مجہول العین راوی کی روایت ضعیف ومردود ہوتی ہے۔
یہ بات بہت عجیب وغریب ہے کہ منکرین حدیث اور مخالفین کتاب وسنت ہمیشہ صحیح وثابت روایات کو ردکردیتے ہیں اور اس طرح کی بے سروپا مجہول ومردود قسم کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں۔ان لوگوں کا اصل مقصد اپنی بدعت کی گمراہی کی تائید ہوتا ہے اور بس!
عوام الناس کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دنیا کی کسی کتاب کابھی حوالہ دے تو آنکھیں بند کرکے اس پر یقین نہ کریں بلکہ اصول حدیث کی روشنی میں سند ومتن کی تحقیق کروائیں اور صحیح وثابت ہونے کے بعد ہی اسے تسلیم کریں۔
تفسیر ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ میں اسی سند کے ساتھ محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ:
"قال ابن إسحاق : وحدثني يعقوب بن عتبة بن المغيرة بن الأخنس : أن معاوية بن أبي سفيان ، كان إذا سئل عن مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : كانت رؤيا من الله تعالى صادقة "
"مجھے یعقوب بن عتبہ بن المغیرہ بن الاخنس نے حدیث بیان کی کہ(سیدنا) معاویہ بن ابی سفیان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے اللہ کی طرف سے(یہ) سچا خواب تھا۔(15/13)
یہ روایت بھی منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ومردود ہے۔یعقوب بن عتبہ طبقہ سادسہ(تبع تابعین) میں سے تھے،انھوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا۔
معلوم ہوا کہ یہ دونوں روایتیں سرے سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے بذریعہ ٹیلی فون مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں یہ دونوں روایتیں لکھ کر ان کی تردید بھی کررکھی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ"
"یہ(حقیقی) آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس تک معراج والی رات دکھایا گیا۔(صحیح بخاری:3889)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ....الخ "
"میں بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔الخ
(صحیح بخاری:3207 صحیح مسلم :164/416)
معلوم ہوا کہ معراج بیداری میں ہوئی تھی۔(الحدیث:42)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب