سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) قصیدہ بردہ کی حقیقت

  • 20914
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 3001

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام بوصیری جن کا قصیدہ بردہ شریف مشہور ہے اور عموماً ٹی وی پر بھی نشر ہوتا ہے۔اس کی کیا حقیقت ہے؟امام بوصیری نام کا شخص کون ہے؟(عبدالقدوس السلفی،اسلام آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوصیری لقب کے دو آدمی زیادہ مشہور ہیں:

1۔حافظ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن اسماعیل البوصیری القاہری آپ762ھ میں پیدا ہوئے اور 840ھ میں اٹھتر سال کی عمر میں فوت ہوئے۔آپ حافظ بلقینی،حافظ عراقی،حافظ ہشیمی  رحمۃ اللہ علیہ  اور حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم کے شاگرد تھے۔آپ کی کتابوں میں زوائد سنن ابن ماجہ اور اتحاف الخیرۃ المہرۃ فی زوائد المسانیدالعشرۃ بہت مشہور ہیں۔آپ کے استاد حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب انباء الغمر(8/431) میں آپ کی تعریف کی ہے۔بوصیری مذکور کے حالات درج ذیل کتابوں میں موجود ہیں:

انباء الغمر،الضوء اللامع للسخاوی(1/251) حسن المحاضرہ للسیوطی(1/363) شذرات الذہب(7/233) النجوم الزاہرہ(15/209) ذیل طبقات الحفاظ(379) وغیرہ۔وہ "الشيخ المفيد الصالح المحدث الفاضل" تھے لیکن ان کے مزاج میں حدت تھی اور ان کے خط میں متون واسماء کی تحریفات کثیرہ تھیں۔رحمۃ اللہ علیہ

2۔محمد بن سعید بن حماد بن حسن البوصیری الولاصی ،ولادت 608ھ اور وفات 695ھ ہے۔یہ شخص حافظ ابن حجر و حافظ ذہبی سے پہلے گزرا ہے لیکن میرے علم کے مطابق کسی محدث نے اس  کا ذکر نہیں کیا اور نہ اس کا ثقہ وصدوق یا موثق ہونا حدیث کے کسی قابل اعتماد عالم سے ثابت ہے،معلوم ہوا کہ یہ ایک مجہول الحال شاعر تھا۔

قصیدہ بردہ میں غلو سے بھر پور اور کتاب وسنت کے خلاف اشعار موجود ہیں۔مثلاً: "الفصل العاشر: في المناجاة وعرض الحاجات" میں لکھا ہوا ہے:

"يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به

سواك عند حلول الحادث العمم"

"اے بزرگترین مخلوقات یا اے بہترین  رسل بوقت نزول حادثہ عظیم و عام کے آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی میں پناہ میں آؤں ۔صرف آپ ہی کا بھروسہ ہے۔"

(عطر الوردہ فی شرح البردہ،ترجمہ ازذوالفقار علی دیوبندی ص 85)

یہ کہنا کہ عظیم حادثوں میں صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہی  پناہ اور بھروسا ہے،قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَا النَّصرُ إِلّا مِن عِندِ اللَّهِ العَزيزِ الحَكيمِ ﴿١٢٦﴾... سورةآل عمران

"اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔"

(آل عمران :126،ترجمہ احمد رضا خان بریلوی ص 106)

معلوم ہواکہ مافوق الاسباب مدد کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفتِ خاصہ ہے لہذا اس مدد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مخاطب کرنا غلط ہے۔

سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایسے آدمی کے بارے میں ارشاد مبارک ہے جو کہتا ہے یا کہے گا:

"يارسول الله أغثني" یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! میری مدد کریں"

"لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا" "میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں"(صحیح بخاری:3073 وصحیح مسلم:1831)

اس صحیح حدیث کی تائید سورۃ  الاعراف کی آیت نمبر 188 سے بھی ہوتی ہے ۔واضح رہے کہ صحیح حدیث بذات خود حجت ہے چاہے عقائد واحکام کا مسئلہ ہو یا فضائل ومناقب کا اور چاہے اس کی تائید قرآن مجید میں واضح طور پر موجودہویا نہ ہو،ہرحال میں صحیح حدیث حجت ہے۔والحمدللہ۔

فائدہ:۔

قصیدہ بردہ میں ایک شعر لکھا ہوا ہے کہ:

"فمبلغ العلم فيه انه بشر

وانه خير خلق الله كلهم"

"ہے ہمارے علم اور تحقیق کی غایت یہی۔۔۔تھا وہ انسان اور انسانوں میں افضل اور تم"(قصیدہ بردہ مع ترجمہ ملک محمد اشرف نقشبندی ص32)

ترجمے میں غالباً:"اور اتم" کے الفاظ ہیں۔واللہ اعلم۔

اس شعر میں بوصیری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور نورہدایت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو" بشر"اور "خير خلق الله كلهم"قرار دیاہے،جبکہ بعض لوگ بشر کے لفظ سے چڑتے ہیں۔(الحدیث:37)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ101

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ