السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1) بریلوی مولوی اپنی مروجہ بدعات کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتراویح کی جماعت کاحکم دینااور فرمانا"نعمت البدعة هذه" یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔لہذا اچھی بدعت جائز ہے۔
2۔مرقاۃ باب الاحکام میں حدیث ہے:جس کام کو مسلمان اچھی جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔
3۔مشکوٰۃ باب العلم میں ہے:"جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کو بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کےثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔اور جو شخص اسلام میں براطریقہ جاری کرے گا۔تو اس پر اس کاگناہ بھی ہےاور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔"
آپ ذران دلائل کا پوسٹ مارٹم کردیں۔جزاکم اللہ خیراً۔
2۔کیا"بدعت حسنہ" او بدعت سئیہ"کی تقسیم درست ہے؟جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل وقول موجود ہے یعنی تراویح کی جماعت کا حکم اور فرمایا:
"نعمت البدعة هذه" "یہ ایک اچھی بدعت ہے "اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " ہر بدعت گمراہی ہے۔(حافظ عاطف منظور ،فتح ٹاؤن اوکاڑہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
"نعمت البدعة هذه" سے مراد بدعت شرعی نہیں بلکہ بدعت لغوی ہے۔دیکھئے منھاج السنۃ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ومرعاۃ المفاتیح (4/327ح1309) یہی تحقیق شاطبی (الاعتصام 1/250) اور ان رجب(جامع العلوم والحکم:28) کی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"والبدعة على قسمين : القسم الاول:
تارة تكون بدعة شرعية كقوله صلي الله عليه وسلم"
"وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "
القسم الثاني:"وتارة تكون بدعة لغوية، كقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن جمعه إياهم على صلاة التراويح و استمرارهم: نعْمَتْ البدعةُ هذه".
بدعت کی دو قسمیں ہیں:(1) بدعت شرعی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
2۔اورکبھی یہ بدعت لغوی ہوتی ہے جیسے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب کا قول،جو لوگوں کو نماز تراویح پر مستقل جمع کرنے کے بارے میں ہے یہ اچھی بدعت ہے۔(تفسیر ابن کثیر 1/348،البقرۃ:117)
یادرہے کہ تراویح کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اورفعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بدعت گمراہی ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اسے بدعت شرعی کہا جاتا ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول میں بدعت سے مراد شرعی بدعت نہیں بلکہ ایک ایسے عمل کو بدعت کہا گیا ہے جو کہ سنت سے ثابت ہے لہذا اسے لغوی بدعت کہاجائے گایہ شرعی بدعت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من أحدث في ديننا ما ليس فيه فهو رد"
"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔(جزء من حدیث لوین:69وسندہ صحیح ،شرح السنۃ للبغوی :103 ،وسندہ حسن)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی قول:
"ما رأى المسلمون حسنا فهو عند الله حسن"
"میں المسلمون سے مراد تمام(صحیح العقیدہ) مسلمان ہیں لہذا یہ حدیث اجماع کی دلیل ہے"
"مَنْ سَنَّ فِي الإسلام سُنَّةً حَسَنَةً.....الخ" سے مراد طریقہ جاری کرنا ہے،طریقہ گھڑنا اور ایجاد کرنا نہیں ہے ۔جوطریقہ سنت سے ثابت ہے اسے جاری کرنے میں ہی ثواب ہے۔
بدعت حسنہ اورسئہ کی تقسیم قطعاً درست نہیں ہے،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو اس سلسلے میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے مراد لغوی بدعت ہے جیسا کہ اُوپر مذکورہے۔نیز سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان:
" كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة "
"ہربدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے(بدعت) حسنہ ہی قراردیں۔(السنہ للمروزی :81 وسندہ حسن) بھی اس تقسیم کو باطل قرار دیتا ہے۔(الحدیث:10)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب