کشف کی شرعی حیثیت کیاہے؟ (ایک سائل)
کشف:مکاشفہ کو کہتے ہیں جس میں جنت،دوزخ،ملائکہ اور عالم غیر متناہی کی باتیں مکشوف ہوجاتی ہیں۔دیکھئے کشاف اصطلاحات الفنون(ج2 ص 1254)عرف عام میں کشف اور الہام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
صحیح بخاری(3469)میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم سے پہلے امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنھیں کشف(والہام) ہوتا تھا اور بے شک اگر اس اُمت(مسلمہ) میں اُن میں سے کوئی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُمت مسلمہ میں کسی شخص کو بھی کشف والہام نہیں ہوتا۔
خواب میں کسی چیز کی بشارت یا کسی آدمی کاگمان وقیاس اس سے سراسر مختلف بات ہے ۔
یادرہےکہ جن روایات میں آیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سینکڑوں میل دور سے ساریہ کو پکارا تھا: "يا سارية الجبل" "اےساریہ ،پہاڑ کے قریب جاؤ۔"
یہ ساری روایات اُصول حدیث کی رُو سے ضعیف اور مردود ہیں۔محمد بن عجلان مدلس راوی ہیں لہذا اُن کی عن والی روایت کوضعیف ومردود ہی سمجھا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ کشف بھی غیب دانی کا ایک نام ہے اور اُمتِ مسلمہ میں قیامت تک کسی کو کشف یا الہام نہیں ہوتا۔
نام نہادبزرگوں کے جن واقعات میں کشف والہام کا تذکرہ ہے،وہ سارے واقعات بے اصل اور مردود ہیں۔(الحدیث:28)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابماخذ:مستند کتب فتاویٰ