السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے دلائل سے واضح کریں؟(محمد خلیل چوہان،جلال بلکن،گوجرانوالہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـٰنًا ...﴿١٢٤﴾... سورةالتوبة
"بےشک جو لوگ ایمان لائے ان کاایمان زیادہ ہوتا ہے"اس مفہوم کی دیگر آیات کے لیے دیکھئے صحیح البخاری(کتاب الایمان،باب:1قبل ح8)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً , وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ"
"ایمان کے ساٹھ سے زائد درجے ہیں اور حیا یمان کا(ایک) درجہ ہے۔(صحیح بخاری :9 صحیح مسلم :57/35 ،دارالسلام:152)
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من أحب لله وأبغض لله، وأعطى لله ومنع لله، فقد استكمل الإيمان"
"جو شخص اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے بغض رکھے،اللہ کے لیے(مال) دے اور اللہ کے لیے(ہی مال) روکے تو اس کا ایمان مکمل ہے۔(ابوداود:4681 وسندہ حسن)
"الإيمان يزيد وينقص"ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔(کتاب الایمان لابن ابی شیبہ:14وسندہ صحیح)
اس کے راوی یزید بن عمیر کو امام عبدالرحمان بن مہدی نے "قوم توارثوا الصدق"میں سے قرار دیا ہے۔(مسائل محمد بن عثمان بن ابی شیبہ:25 بتحقیقی،الموتلف والمختلف للدارقطنی 2/923)
اہل سنت کا یہی مسلک وموقف ہے کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔
دیکھئے الشریعۃ للامام محمد بن الحسین الآجری (ص116۔118) و شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ للالکائی(5/890۔964) وغیرھما۔
یہی عقیدہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا ہے،رحمہم اللہ اجمعین،جبکہ دیوبندیوں وبریلویوں کی کتاب عقائد نسفیہ(ص92)میں لکھا ہوا ہے:
"الإيمان لا يزيد ولا ينقص "
"ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے"
دیوبندیوں کے نزدیک ایمان فقط تصدیق قلب کا نام ہے۔دیکھئے حقانی عقائد الاسلام(ص123،تصنیف عبدالحق حقانی وپسند فرمودہ محمد قاسم نانوتوی)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"حدثنا الهذيل بن سليمان أبو عيسى، قال: سألت الأوزاعي قلت: يا أبا عمرو! ما تقول في رفع الأيدي مع كل تكبيرة وهو قائم في الصلاة؟ قال: ذلك الأمر الأول.: وسئل الأوزاعي - وأنا أسمع - عن الإيمان. فقال: يزيد وينقص، فمن زعم أن الإيمان لا يزيد ولا ينقص فهو صاحب بدعة، فاحذروه !.
"ہمیں ہذیل بن سلیمان ابو عیسیٰ نے حدیث بیان کی،کہا:میں نے اوزاعی سے پوچھا،میں نے کہا:اے ابوعمرو!آپ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کے بارے میں کیا کہتے ہیں،جبکہ آدمی نماز میں کھڑا ہو؟انھوں نے کہا:یہ پہلے والی بات ہے(یعنی اسلاف کا اسی پر عمل ہے)اور اوزاعی سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا اور میں سن رہاتھا توانھوں نے فرمایا:ایمان زیادہ(بھی)ہوتاہے اور کم(بھی) ہوتاہے،جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا وہ شخص بدعتی ہے اس سے بچو۔(جزءرفع یدین بتحقیقی:108،حسن ہے،قلمی بخظ یدی ص129)
میں نے جزء رفع یدین کے ترجمے میں"حسن ہے"لکھا تھا جو کہ کمپوزر کی غلطی سے :"ضعیف ہے"چھپ گیا،اس غلطی کی اصلاح مراجعت میں بھی رہ گئی،میرا طریق کار یہ ہے کہ میں ضعیف روایت کی وجہ بیان کردیتا ہوں جبکہ جزءرفع یدین کے مطبوعہ نسخے میں ضعیف کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے۔جزءرفع یدین کے عربی نسخے والی اصل پر بھی میرے ہاتھ سے بالکل صاف"اسنادہ حسن"لکھا ہوا ہے(قلمی ح108) لہذا ا پنے نسخوں کی اصلاح کرلیں۔
ہذیل بن سلیمان سے مراد فدیک بن سلیمان ہیں جس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت بیان کی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عام طور پر اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں،نیز حافظ ابن حبان نے بھی ان توثیق کی ہے لہذا فدیک "مذکور"حسن الحدیث ہیں۔امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 157ھ) کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کایہ عقیدہ ہے کہ ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا وہ لوگ بدعتی ہیں۔اعاذنااللہ من شرھم(الحدیث:2)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب