سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بغیرکلی کے وضوکا حکم

  • 209
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1407

سوال

بغیرکلی کے وضوکا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا سوال یہ ہے کہ وضو کرتے وقت اگر کوئی شخص کلی نہ کرے یا ناک میں پانی نہ  ڈالے تو کیا  اس کا وضو مکمل ہوجاتا ہے یا اگر وضو کے بعد اٹھ کر دوسرے پانی سے یہ عمل بھی کر لے  تو کیا یہ وضو صحیح ہوا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ صالح المنجد ایک سوال کا جواب دیتے ہوءے فرماتے ہیں۔

وضوء دو طرح سے ثابت ہے:

پہلا: واجب كردہ طريقہ:

اول:

پورا چہرہ ايك بار دھونا، اس ميں كلى كرنا اور ناك ميں پانى ڈالنا بھى شامل ہے.

دوم:

دونوں بازو كہنيوں تك ايك بار دھونے.

سوم:

سارے سر كا مسح كرنا، اس ميں كانوں كا مسح بھى شامل ہے.

چہارم:

دونوں پاؤں ٹخنوں سميت ايك بار دھونا، ايك بار دھونے سے مراد يہ ہے كہ سارا عضو دھويا جائے.

پنجم:

ترتيب كے ساتھ اعضاء كا دھونا. يعنى پہلے چہرہ دھويا جائے، پھر دونوں بازو، اور پھر سر كا مسح اور پھر دونوں پاؤں،كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ترتيب كے ساتھ وضوء كيا تھا.

ششم:

موالاۃ يعنى: اعضاء كو مسلسل دھونا كہ ايك عضو دھونے كے بعد دوسرا عضو دھونے ميں زيادہ وقت فاصلہ نہ ہو، بلكہ ايك عضو كے بعد دوسرا عضو دھويا جائے.

يہ وضوء كے فرائض ہيں جن كے بغير وضوء صحيح نہيں ہوتا.

ان فرائض كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو ليا كرو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تك دھويا كرو، اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو پھر طہارت كرو اور اگر تم مريض ہو يا سفر ميں يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كرے يا پھر بيوى سے جماع كرے اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرلو، اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتيں مكمل كرنى چاہتا ہے، تا كہ تم شكر كرو ﴾المآئدۃ ( 6 ).

دوسرا طريقہ: يہ مستحب ہے.

جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں وارد ہے، اس كى تفصيل درج ذيل ہے:

1 - انسان طہارت كرنے اور ناپاكى دور كرنے كى نيت كرے، اور يہ نيت زبان سے ادا نہيں ہو گى، كيونكہ نيت كى جگہ دل ہے، اور يہ دل سے ہوتى اور اسى طرح باقى سب عبادات ميں بھى نيت دل سے ہوگى.

2 - پھر بسم اللہ پڑھے.

3 - تين بار دونوں ہاتھ دھوئے.

4 - پھر تين بار كلى كرے ( كلى يہ ہے كہ مونہہ ميں پانى ڈال كر گھمائے) اور تين بار ناك ميں پانى ڈال كر بائيں ہاتھ سے ناك جھاڑے.

5 - اپنا چہرہ تين بار دھوئے، لمبائى ميں چہرہ كى حد سر كے بالوں سے ليكر تھوڑى كے نيچے تك، اور چوڑائى ميں دائيں كان سے بائيں كان تك ہے، مرد كى داڑھى اگر گھنى ہو تو وہ داڑھى كو اوپر سے دھوئے اور اندر كا خلال كرے، اور اگر كم ہو تو سارى داڑھى دھوئے.

6 - پھر اپنے دونوں ہاتھ كہنيوں تك تين بار دھوئے، ہاتھوں كى حد انگليوں كے ناخنوں سے ليكر بازو كے شروع تك ہے، اگر دھونے سے قبل ہاتھ ميں آٹا يا مٹى يا رنگ وغيرہ لگا ہو تو اسے اتارنا ضرورى ہے، تا كہ پانى جلد تك پہنچ جائے.

7 - اس كے بعد نئے پانى كے ساتھ سر اور كانوں كا ايك بار مسح كرے ہاتھوں كے بچے ہوئے پانى سے نہيں، سر كے مسح كا طريقہ يہ ہے كہ اپنے دونوں ہاتھ پيشانى كے شروع ميں ركھے اور انہيں گدى تك پھيرے اور پھر وہاں سے واپس پيشانى تك لائے جہاں سے شروع كيا تھا، پھر دونوں انگشت شہادت كانوں كے سوراخوں ميں ڈال كر اندر كى طرف اور اپنے انگوٹھوں سے كانوں كے باہر كى طرف مسح كرے.

عورت اپنے سر كا مسح اس طرح كرے كہ وہ پشانى سے ليكر گردن تك لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرے، اس كے ليے كمر پر لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرنا ضرورى نہيں.

8 - پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تك تين بار دھوئے، ٹخنے پنڈلى كے آخر ميں باہر نكلى ہوئى ہڈى كو كہتے ہيں.

مندرجہ بالا طريقہ كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے غلام حمران بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے وضوء كا پانى منگوايا اور اپنے ہاتھ تين بار دھوئے پھر كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا، اور پھر اپنا چہرہ تين بار دھويا، پھر اپنا داياں ہاتھ كہنى تك تين بار دھويا، اور پھر باياں ہاتھ بھى اسى طرح، پھر سر كا مسح كيا اور پھر اپنا داياں پاؤں ٹخنے تك تين بار دھويا، پھر باياں بھى اسى طرح دھويا اور فرمانے لگے:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اسى طرح وضوء كرتے ہوئے ديكھا جس طرح ميں نے يہ وضوء كيا ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ميرے اس وضوء كى طرح وضوء كيا پھر اٹھ كر دو ركعت ادا كيں جن ميں وہ اپنے آپ سے باتيں نہ كرے تو اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 331 ).

وضوء كى شروط:

اسلام: كافر كا وضوء صحيح نہيں ہوگا.

عقل: اس طرح پاگل اور مجنون كا وضوء صحيح نہيں.

تمييز: چھوٹے بچے اور جو تميز نہ كر سكے اس كا وضوء صحيح نہيں.

نيت: بغير نيت وضوء صحيح نہيں، مثلا كوئى شخص ٹھنڈك حاصل كرنے كے ليے وضوء كرے تو اس كا وضوء صحيح نہيں.

وضوء كرنے كے ليے پانى طاہر ہونا بھى شرط ہے، كيونكہ اگر پانى نجس ہو تو اس سے وضوء صحيح نہيں.

اسى طرح اگر جلد يا ناخن پر كوئى چيز لگى ہو جس سے پانى نيچے نہ پہنچے تو اسے اتارنا بھى شرط ہے، مثلا عورتوں كى نيل پالش وغيرہ.

جمہور علماء كرام كے ہاں بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے، ليكن اس ميں اختلاف ہے كہ آيا يہ واجب ہے يا سنت، وضوء كے شروع ميں يا درميان ميں ياد آجانے كى صورت ميں بسم اللہ پڑھنا ضرورى ہے.

مرد اور عورت كے وضوء كے طريقہ ميں كوئى اختلاف نہيں.

وضوء سے فارغ ہونے كے بعد درج ذيل دعاء پڑھنى مستحب ہے:

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں .

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" جو كوئى بھى مكمل وضوء كرے اور پھر وہ يہ كلمات كہے:

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

تو اس كے ليے جنت كے آٹھوں دروازے كھول ديے جاتے ہيں، جن ميں سے چاہے جنت ميں داخل ہو جائے "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 345 ).

اور ترمذى شريف كى روايت ميں درج ذيل الفاظ زيادہ ہيں:

" اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين "

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں سے بنا، اور مجھے پاكيزگى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر"

سنن ترمذى كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 50 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 48 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: اللمخص الفقھى للفوزان ( 1 / 36 ).

اور آپ كا يہ كہنا:

ميرى دعا ہے كہ اللہ تعالى ہمارے نبى پر اپنى رحمت نازل فرمائے، اس كے متعلق گزارش ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق وہى كچھ مشروع ہے جس كا اللہ تعالى نے ہميں حكم ديا كہ ہم ان پر درود پڑھيں، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ يقينا اللہ تعالى اور اس كے فرشتے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے ہيں، اے ايمان والو تم بھى اس پر درود و سلام پڑھا كرو ﴾الاحزاب ( 56 ).

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے