السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں آپ کے موقر اسلامی جریدے ماہنامہ"الحدیث" کامستقل قاری ہوں۔آپ جس محنت اور عرق ریزی سے مسائل کی تحقیق وتنقیح فرماتے ہیں،اس سے دل کو اطمینان وسرور حاصل ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے زور قلم کو اور بھی بڑھادے۔
دوسوالات پوچھنا چاہتا ہوں،اُمید ہے کہ آپ ان کی تحقیق وتخریج اور تنقیح فرمائیں گے۔(پہلا سوال یہ ہے کہ) فلسفہ وحدت الوجود کیا ہے؟اس کی مکمل تفصیل اور تنقیح فرمائیں۔والسلام:آپ کا دینی بھائی (محمد شیر وزیر۔پی سی ایس آئی آرلیبارٹریز،پشاور)
دوسرا سوال مع جواب آگے آرہا ہے۔ان شاء اللہ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اردو لغت کی ایک مشہور کتاب میں وحدت الوجود کامطلب ان الفاظ میں لکھاہواہے:
"تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ کا وجود خیال کرنا۔اور وجود ماسویٰ کو محض اعتباری سمجھنا جیسے قطرہ ،حباب،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا"(حسن اللغات فارسی اردو ص941)
وارث سرہندی کہتے ہیں:"صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔"(علمی اردو لغت ص1551)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وَأَمَّا " الِاتِّحَادُ الْمُطْلَقُ " الَّذِي هُوَ قَوْلُ أَهْلِ وَحْدَةِ الْوُجُودِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ وُجُودَ الْمَخْلُوقِ : هُوَ عَيْنُ وُجُودِ الْخَالِقِ ".
اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے:جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کاوجود عین خالق کا وجود ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج10 ص59)
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"قال وصاحب هذا الكتاب الذي هو فصوص الحكم وامثاله مثل صاحبه الغرنوي والتلمساني وابن سبعين والسنكري واتباعهم مذهبهم الذي هم عليه ان الوجود واحد ويسمون اهل وحدة الوجود، ويدّعون التحقيق والعرفان فهم يجعلون وجود الخالق عين وجود المخلوقات "
کتاب مذکور جو فصوص الحکم ہے،کا مصنف اور اس جیسے دوسرے مثلاً قونوی،تلمسانی ،ابن سبعین،ششتری،ابن فارض اور ان کے پیروکار ،ان کا مذہب یہ ہے کہ وجود ایک ہے۔انھیں وحدت الوجود والے کہاجاتا ہے اور وہ تحقیق وعرفان کادعویٰ رکھتے ہیں اور یہ لوگ خالق کے وجود کو مخلوقات کے وجود کاعین قرار دیتے ہیں۔(مجموع فتاویٰ ج2 ص123،124)
حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:
"الْمُرَاد بِتَوْحِيدِ اللَّه تَعَالَى الشَّهَادَة بِأَنَّهُ إِلَه وَاحِد وَهَذَا الَّذِي يُسَمِّيه بَعْض غُلَاة الصُّوفِيَّة تَوْحِيد الْعَامَّة , وَقَدْ اِدَّعَى طَائِفَتَانِ فِي تَفْسِير التَّوْحِيد أَمْرَيْنِ اِخْتَرَعُوهُمَا , أَحَدهمَا : تَفْسِير الْمُعْتَزِلَة كَمَا تَقَدَّمَ , ثَانِيهمَا : غُلَاة الصُّوفِيَّة فَإِنَّ أَكَابِرهمْ لَمَّا تَكَلَّمُوا فِي مَسْأَلَة الْمَحْو وَالْفَنَاء وَكَانَ مُرَادهمْ بِذَلِكَ الْمُبَالَغَة فِي الرِّضَا وَالتَّسْلِيم وَتَفْوِيض الْأَمْر , بَالَغَ بَعْضهمْ حَتَّى ضَاهَى الْمُرْجِئَة فِي نَفْي نِسْبَة الْفِعْل إِلَى الْعَبْد , وَجَرَّ ذَلِكَ بَعْضهمْ إِلَى مَعْذِرَة الْعُصَاة , ثُمَّ غَلَا بَعْضهمْ فَعَذَرَ الْكُفَّار , ثُمَّ غَلَا بَعْضهمْ فَزَعَمَ أَنَّ الْمُرَاد بِالتَّوْحِيدِ اِعْتِقَادوَحْدَة الْوُجُود"
"اللہ تعالیٰ کی توحید سے مراد اس بات کی گواہی دینا ہے کہ وہی ایک الٰہ ہے اور اسے بعض غالی صوفی:عوام کی توحید کہتے ہیں۔دو گروہوں نے توحید کی تشریح میں دو باتیں گھڑی ہیں:ایک معتزلہ کی تفسیر جیسا کہ گزر چکا ہے۔دوسرے غالی صافی جن کے اکابر نے جب محووفناء کے مسئلے میں کلام کیا اور ان کی اس سے مراد تسلیم ورضا اور معاملات کو اللہ کے سپرد کرنے میں مبالغہ تھا،ان میں سے بعض نے مبالغہ کرکے بندے سے نسبتِ فعل کی نفی کرکےمرجئہ سے برابری کی اور اس بات نے بعض کو گناہ گاروں کے معذور ہونے پر آمادہ کرلیا پھر بعض نے غلو کرکے کفار کو بھی معذور قراردیا پھر بعض نے غلو کرکے یہ دعویٰ کیا کہ توحید سے مراد وحدت الوجود کا عقیدہ ہے۔۔۔(فتح الباری ج13 ص 348 کتاب التوحید باب:1)
معلوم ہوا کہ ابن حجر کے نزدیک وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھنے والے بے حد غالی صوفی ہیں۔
ایک پیر نے اپنے مرید سے کہا:
"اعتقد ان جميع الاشياء باعتبار باطنها متحد مع الله تعاليٰ وباعتبار ظاهرها مغاير له وسواه"
"یہ عقیدہ رکھو کہ تمام چیزیں باطنی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ متحد ہیں اور ظاہری لحاظ سے اس کے علاوہ اور اس کا مغائر(غیر) ہیں۔
اس کے بارے میں ملاعلی قاری حنفی نے کہا:
"هذا كلام ظاهر الفساد مائل إلى وحدة الوجود أو الإتحاد كما هو مذهب أهل الإلحاد"
اس کلام کا فاسد ہونا ظاہر ہے،یہ وحدت الوجود یا اتحاد کی طرف مائل ہے جیسا کہ ملحدین کا مذہب ہے ۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود لملاعلی قاری ص13،مطبوعہ دارالمامون المتراث دمشق ،الشام)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے وحدت الوجود کے رد پر ایک رسالہ بنام:
"إبطال وحدة الوجود والرد على القائلين بها"
لکھا ہے جو تقریباً ایک سو اٹھائیس(128) صفحات پر مشتمل ہے،جسے کویت کے ایک مکتبے نے فہرست اور تحقیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
ابن عربی (الحلولی) کی طرف منسوب کتاب فصوص الحکم میں لکھا ہوا ہے:
"فانت عبد وانت رب
لمن له فيه انت عبد"
"بس تو بندہ ہے اور تو رب ہے ۔۔۔۔۔کس کا بندہ!اس کابندہ جس میں توفنا ہوگیا ہے"
(فصوص الحکم اردو ص 157،فص حکمت علیۃ فی کلمۃ اسماعیلیۃ ،مترجم عبدالقدیر صدیقی ،دوسرا نسخہ ص 77 مع شرح الجامی ص 202تنبیہ الغبی الی التکفیر ابن عربی للامام العلامۃ المحدث برہان الدین البقاعی رحمۃ اللہ علیہ ص71)
کتب لغت اور علماء کے ان چند حوالوں سے معلوم ہوا کہ ابن عربی(اور حسین بن منصور الحلاج) کے مقلدین کے عقیدے وحدت الوجود سے خالق اور مخلوق کاایک ہونا ،حلولیت اور اتحاد ظاہر ہے یعنی ان لوگوں کے نزدیک بندہ خدا اور خدا بندہ ہے۔اب آپ کے سامنے وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کی دس عبارتیں پیش خدمت ہیں جن سے درج بالا نتیجے کی تصدیق ہوتی ہے:
1۔تھانہ بھون کے حاجی امداداللہ ولد حافظ محمدامین ولد شیخ بڈھا تھانوی عرف مہاجر مکی نے لکھا ہے:"اور اس کے بعد اس کو ہو،ہوکے ذکر میں اسقدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی(اللہ) ہوجائے اور فنا درفنا کے یہی معنی ہیں اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔"(کلیات امدادیہ ص18 ،ضیاء القلوب)
بریکٹ میں اللہ کا لفظ اسی طرح کلیات امدادیہ میں لکھا ہوا ہے۔!
2۔حاجی امداد اللہ صاحب ایک آیت:
"وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ "(الزاریات:21) کا غلط ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"خدا تم میں ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔"(کلیات امدادیہ ص31،ضیاء القلوب)
آیت مذکورہ کا ترجمہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ الدہلوی لکھتے ہیں:
"ودرذات شمانشا نہاست۔۔۔۔۔آیا نمی نگرید" (ترجمہ شاہ ولی اللہ ص627)
یعنی اور تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے؟
شاہ ولی اللہ کے ترجمے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس آیت سے پہلی آیت میں آیات یعنی نشانیوں کا لفظ آیا ہے۔
3۔حاجی امداد اللہ تھانہ بھونوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
"اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوجاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب وامکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں"(کلیات امدادیہ ص35،36 ضیاء القلوب)
4۔عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:"ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیاکہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے۔
حضرت نے فرمایا"پکاکافر تھا"اور اس کے بعد مسکرا کرارشاد فرمایا کہ:"ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے۔"(تذکرۃ الرشید جلد2 ص242)
عبارت مذکورہ میں حضرت سے مراد رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد سے مراد بزل المجہود،براہین قاطعہ اور المہند کے مصنف خلیل احمد انبیٹھوی سہارنپوری ہیں۔
ضامن علی جلال آبادی کون تھے اور کس توحید میں غرق تھے؟ اس کے بارے میں گنگوہی"صاحب ارشادفرماتے"ہیں:"ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کے لیے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا"میاں صاحب ہم نے اُس سے بتہیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اُس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں"میاں صاحب نے کہانہیں جی تم اُسے ہمارے پاس ضرور لانا چنانچہ رنڈیاں اُسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا"بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟"اُس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے"بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والاکون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے"رنڈی یہ سن کر آگ ہوگئی اور خفا ہوکر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ وگناہگار ہوں مگر ایسے پیر کے مُنہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔"میاں صاحب تو شرمندہ ہوکر سرنگوں رہ گئے اور وہ اُٹھ کر چلدی۔"(تذکرۃ الرشید ج2 ص242)
اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب کے نزدیک توحید میں غرق پیر کا یہ عقیدہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے۔معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔(نعوذباللہ)
اللہ کی قسم!وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے وجودیوں کی ایسی عبارات نقل کرنے سے دل ڈرتا اور قلم کانپتا ہے لیکن صرف احقاق حق اور ابطال باطل کے پیش نظر یہ حوالے پیش کیے جاتے ہیں اور صرف عام مسلمانوں کو ان کااصلی چہرہ اور باطنی عقیدہ دکھانا مقصود ہے۔
5۔ضامن علی جلال آبادی کو توحید میں غرق سمجھنے والے رشید احمد گنگوہی نے اپنے پیر حاجی امداداللہ کو ایک خط لکھا تھا جس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:
"یااللہ معاف فرمانا ہے کہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے۔جھوٹا ہوں،کچھ نہیں ہوں۔تیرا ہی ظل ہے۔تیرا ہی وجود ہے میں کیا ہوں،کچھ نہیں ہوں۔اور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک درشرک ہے۔استغفراللہ۔۔۔"!
(فضائل صدقات از زکریا کاندھلوی دیوبندی حصہ دوم ص556 واللفظ لہ مکاتیب رشیدیہ ص10)میں(گنگوہی) اور تُو(خدا) کاایک ہونا وہ عقیدہ ہے جو وحدت الوجود کے پیروکار اور ابن عربی وغیرہ کے مقلدین کئی سو سالوں سے مسلسل پیش کررہے ہیں۔
6۔خواجہ غلام فرید ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا رد کرنے ،عقیدہ استوی علی العرش کو غلط اور عقیدہ وحدت الوجود کو حق قراردینے کے بعد کہتے ہیں:
"وحدت الوجود کو حق تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا کے سواکسی اور کا کوئی وجود ہی نہیں بلکہ سب خدا کا وجود ہے تو پھر بت پرستی کیوں ممنوع ہے اس کا جواب یہ ہے۔بت خدا نہیں بلکہ خدا سے جدا نہیں ہے مثال کے طور پر زید کاہاتھ زید نہیں ہے لیکن زید سے جدا نہیں ہے۔۔۔"(مقابیس المجالس عرف اشاراتِ فریدی ص218)
7۔خواجہ محمد یارفریدی کہتے ہیں:
"گرمحمد نے محمد کو خدا مان لیا۔۔۔۔۔پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغا باز نہیں"
(دیوان محمدی ص 156)
یہ وحدت الوجود ہی کا عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد یار صاحب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لیا ہے:سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
8۔محمد قاسم نانوتوی،رشید احمد گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کے پیر حاجی امداد اللہ کہتے ہیں:
"حرمین مین بعض امور عجیب وپسندیدہ ہیں(1) وحدۃ الوجود لوگوں میں بہت مرُتکز ہے میں مدینہ میں مسجد قبا کی زیارت کو گیا ایک آدمی کودیکھا کہ اندر مسجد کے جاروب کشی میں مشغول ہے جب زیارت سے فارغ ہوکر میں باہر آیا اور جوتے پہننے کا قصد کیا تو سنا کہ کہتا ہے۔یا اللہ یاموجود اور دوسرا جو بیرون مسجد تھا کہتا تھا بل فی کل الوجود اس کو سن کر مجھ پر ایک حالت طاری ہوئی بعدہ،لڑکوں کو شغدف میں دیکھا کہ کھیل رہے ہیں اور ایک لڑکا کہہ رہا ہے اس سے میں نہایت بے تاب ہوااور کہا کہ کیوں ذبح کرتے ہو۔۔۔"(شمائم امدادیہ ص71،72،امداد المشتاق ص95 فقرہ:191)
ہروجود میں اللہ کوموجود سمجھنا وحدت الوجود کابنیادی عقیدہ ہے۔
9۔حاجی امداد اللہ تھانہ بھونوی کہتے ہیں:
"ایک موحد سے لوگوں نے کہا کہ اگرحلواوغلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ انہوں نے بشکل خنزیر ہوکرگوہ کوکھالیا۔پھر بصورت آدمی ہوکرحلوا کھایا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے"(شمائم امدادیہ ص75،امداد المشتاق ص101 ،فقرہ :224 ،واللفظ لہ)
شمائم کے مطبوعہ نسخے میں غلیظ کے بجائے غلیط لکھا ہوا ہے جس کی اصلاح امداد المشتاق سے کردی گئی ہے۔گُوہ پاخانے کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وجودیوں کے نزدیک پاک وناپاک سب ایک ہے۔
10۔ایک سوال کونقل کرتے ہوئے حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہیں:"سوال دوم۔۔۔اور دوسری جگہ ضیاء القلوب ہی میں ہے تاوقت یہ کہ ظاہر ومظہر میں فرق پیش نظر سالک ہے بوُئے شرک باقی ہے اس مضمون سے معلوم ہوا کہ عابد ومعبود میں فرق کرناشرک ہے۔
جواب دوم کوئی شک نہیں ہے کہ فقیر نے یہ سب ضیاء القلوب میں لکھا ہے اگر کہیں کہ جو کچھ کہا نہیں جاتاہے کیوں لکھا گیا جواب یہ ہے کہ اکابر دین اپنے مشکوفات کو تمثیلات محسوسات سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ طالب صادق کوسمجھادیں نہ یہ کہ كانه‘هُوَ کہہ دیتے ہیں۔۔۔"(شمائم امدادیہ ص34،35)
خلاصہ یہ کہ عابدومعبود کو ایک سمجھنا،اللہ تعالیٰ کو عرش پر مستوی نہ ماننا بلکہ اپنی ذات کے ساتھ ہرجگہ ہر وجود میں موجود ماننا اور حلولیت کاعقیدہ رکھنا مختصر الفاظ میں وحدت الوجود کہلاتا ہے۔
یہی وہ عقیدہ ہے جسے حسین بن منصور الحلاج مقتول اور ابن عربی صُوفی نے علانیہ پیش کیا۔التنبیہ علی مشکلات الہدایہ کے مصنف علی بن ابی العز الحنفی(متوفی 792ھ) لکھتے ہیں:
"وهذا القول قد أفضى بقوم إلى القول بالحلول أو الاتحاد وهو أقبح من كفر النصارى فإن النصارى خصوه بالمسيح وهؤلاء عموا جميع المخلوقات. ومن فروع هذا التوحيد: أن فرعون وقومه كاملو الإيمان، عارفون بالله على الحقيقة. ومن فروعه: أن عباد الأصنام على الحق والصواب، وأنهم إنما عبدوا الله لا غيره"
"اور یہ قول ایک قوم کو حلول واتحاد کی طرف لے گیا ہے اور یہ نصرانیوں (عیسائیوں) کے کفر سے زیادہ بُرا ہے کیونکہ نصرانیوں نے تو اسے مسیح کے ساتھ خاص مانا اور انھوں نے تمام مخلوقات کے بارے میں عام کردیا۔اس(وجودی) توحید کی فروع میں سے ہے کہ فرعون اور اس کی قوم مکمل ایمان والے تھے ،حقیقت پر اللہ کو پہچاننے والے تھے۔اس کی فروع میں سے یہ بھی ہے کہ بتوں کی عبادت کرنے والے حق پر اور صحیح ہیں،انھوں نے اللہ ہی کی عبادت کی ہے،کسی دوسرے کی نہیں۔(شرح عقیدہ طحاویہ ص 78،79)
درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ وحدت الوجود کاعقیدہ سراسر گمراہی اور کفریہ عقیدہ ہے جس کارد شیخ الاسلام ا بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ،حافظ ابن حجر العسقلانی،قاضی ابن ابی العز الحنفی اور ملا علی قاری حنفی وغیرھم نے شدومد سے کیا ہے۔ملاعلی قاری وحدت الوجود کے ردمیں اپنی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں:
"فَإِن كنت مُؤمنا حَقًا مُسلما صدقا فَلَا تشك فِي كفر جمَاعَة ابْن عَرَبِيّ وَلَا تتَوَقَّف فِي ضَلَالَة هَذَا الْقَوْم الغوي وَالْجمع الغبي فَإِن قلت هَل يجوز السَّلَام عَلَيْهِم ابْتِدَاء قلت لَا وَلَا رد السَّلَام عَلَيْهِم بل لَا يُقَال لَهُم عَلَيْكُم أَيْضا فَإِنَّهُم شَرّ من الْيَهُود وَالنَّصَارَى وان حكمهم حكم المرتدين............ويجب إحراق كتبهم المؤلفة ويتعين على كل أحد أن يبين فساد شقاقهم فإن سكوت العلماء واختلاف الآراء صار سبباً لهذه الفتنة وسائر الفتنة وسائر أنواع البلاء"
"پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہوتو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو اور اس گمراہ قوم اور بے وقوف اکٹھ کی گمراہی میں توقف نہ کرو،پھر اگر تم پوچھو:کیا انھیں سلام کہنے میں ابتدا کی جاسکتی ہے؟میں کہتا ہوں:نہیں اور نہ ان کے سلام کا جواب دیا جائے بلکہ انھیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سےزیادہ بُرے ہیں اور ان کا حکم مرتدین کا حکم ہے۔۔۔ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو جلانا واجب ہے اور ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کااختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کا سبب بنا ہے۔۔۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود ص155،156)
محدثین کرام علمائے عظام کے ان صریح فتووں کے ساتھ عرض ہے کہ اپنے اسلاف سے بے خبر بعض دیوبندی"علماء" نے بھی وحدت الوجود کا زبردست رد کیا ہے مثلاً:
1۔حکیم میاں عبدالقادر فاضل دیوبند لکھتے ہیں:"وحدۃ الوجود خود کو خدائی مسند پر جلوہ افروز ہونے والوں کا باطل عقیدہ وعمل ہے"(تنزیہ الٰہ ص 185،مطبوعہ بیت الحکمت لوہاری منڈی لاہور،ملنے کاپتہ :کتب خانہ شان اسلام راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور)
2۔خان محمد شیرانی پنجیری دیوبندی(ژوب بلوچستان) نے وحدت الوجود کے رد میں "کشف الجہود عقیدۃ وحدۃ الوجود"نامی کتاب لکھی ہے جس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے کہ"اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کا وحدۃ الوجود اور حلولی کا عقیدہ ہوتا ہے،وہ صحیح نہیں ہے۔"
آخر میں وحدت الوجود کے بڑے داعی اور مشہور حلولی صوفی ابن عربی کامختصر وجامع رد پیش خدمت ہے:
1۔حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ امام(شیخ الاسلام) سراج الدین البلقینی سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا توا نھوں نے فوراً جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔
(لسان المیزان ج4 ص319 ،دوسرا نسخہ 5 ص213 ،تنبیہ الغی الی تکفیر ابن عربی للمحدث البقاعی رحمۃ اللہ علیہ ص 159)
ابن عربی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا ایک گمراہ شخص سے مباہلہ بھی ہوا تھا جس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔ان شاءاللہ
2۔حافظ ابن دقیق العید نے ابومحمد عز الدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی الدمشقی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 660ھ) سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
"شيخ سوء كذاب مقبوح يقول بقدم العالم ولا يرى تحريم الفرج"
گندا،کذاب(اور)حق سے دُور(تھا) وہ عالم کے قدیم ہونے کا قائل تھا اور کسی شرمگاہ کو حرام نہیں سمجھتا تھا۔الخ (الوافی بالوفیات ج4ص 125،وسندہ صحیح تنبیہ الغی ص138)
ابن عبدالسلام کا یہ قول درج ذیل کتابوں میں بھی دوسری سندوں کے ساتھ مذکور ہے:
(تنبیہ الغی ص 139 ،وسندہ حسن) مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ(ج 2 ص244 وسندہ حسن)میزان الاعتدال(3/659)لسان المیزان(5/311،312 ،دوسرا نسخہ 6/398)
تنبیہ:الوافی بالوفیات میں کاتب کی غلطی سے"ابی بکر بن العربی"چھپ گیا ہے جبکہ صحیح لفظ ابی بکر کے بغیر"ابن عربی"ہے۔
3۔ثقہ اور جلیل القدر امام ابوحیان محمد بن یوسف الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 745ھ) نے فرمایا:
"ومن ذهب من ملاحدتهم إلى القول بالاتحاد والوحدة ، كالحلاج والشوذي وابن أحلى وابن عربي المقيم بدمشق وابن الفارض ، وأتباع هؤلاء كابن سبعين وتلميذه التستري وابن المطرّف المقيم بمرسية والصفّار المقتول بغرناطة وابن لباج وابن الحسن المقيم بلوزقة ، وممن رأيناه يُرمى بهذا المذهب الملعون العفيف التلمساني.....الخ"
اور ان کے ملحدین میں سے جو اتحاد اور وحدت(یعنی وحدت الوجود) کاقائل ہے جیسے (حسین بن منصور)الحلاج،شوزی،ابن احلی ،ابن عربی جو دمشق میں مقیم تھا،ابن فارض اوران کے پیروکار جیسے ابن سبعین اور اس کا شاگرد تستری مرسیہ میں رہنے والا ابن مطرف اور غرناطہ میں قتل ہونے والا الصفار،ابناللباج اور لورقہ میں رہنے والا ابو الحسن اور ہم نے جنھیں اس ملعون مذہب کی تہمت کے ساتھ دیکھا ہے جیسے عفیف تلمسانی۔۔۔الخ
(تفسیرالبحر المیحط ج3 ص 464،465،سورۃ المائدہ:17)
4۔تفسیرابن کثیر کے مصنف حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"وله كتابه المسمى (بفصوص الحكم) فيه أشياء كثيرة ظاهرها كفر صريح"
اور اس کی کتاب جس کا نام فصوص الحکم ہے،اس میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا ظاہر کفر صریح ہے۔(البدایہ والنہایہ ج13 ص167،وفیات 638ھ)
5۔حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"وَلَمْ يَمْدَحْ الْحَيْرَةَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَدَحَهَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمَلَاحِدَةِ. : كَصَاحِبِ " الْفُصُوصِ " ابْنِ عَرَبِيٍّ وَأَمْثَالِهِ مِنْ الْمَلَاحِدَةِ الَّذِينَ هُمْ حَيَارَى"
اہل علم اور اہل ایمان میں سے کسی نے بھی حیرت کی تعریف نہیں کی لیکن ملحدین کے ایک گروہ نے اس کی تعریف کی ہے جیسے فصوص الحکم والا ابن عربی اوراس جیسے دوسرے ملحدین جو حیران وپریشان ہیں۔۔۔(فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ج 11 ص 385)
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ دونوں کے بارے میں ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
"وَمَنْ طَالَعَ شَرْحَ مَنَازِلِ السَّائِرِينَ، تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُمَا كَانَا مِنْ أَكَابِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ، وَمِنْ أَوْلِيَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ"
"اور جس نے منازل السائرین کی شرح کامطالعہ کیا ہے تو اس پر واضح ہوا کہ وہ(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اورابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ) دونوں اہل سنت والجماعۃ کے اکابر اور اس امت کے اولیاء میں سے تھے۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج1 ص 207)
6۔محدث بقاعی لکھتے ہیں کہ ہمارے استاذ حافظ ابن حجر العسقلانی کا ابن الامین نامی ایک شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔اس آدمی نے کہا:اے اللہ!اگر ابن عربی گمراہی پر ہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پرہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔
وہ شخص اس مباہلے کے چند مہینے بعد رات کو اندھا ہوکرمرگیا۔یہ واقعہ 797ھ کو زوالقعدہ میں ہواتھا اور مباہلہ رمضان میں ہوا تھا۔(تنبیہ الغی ص136،137)
7۔ملا علی قاری حنفی کا حوالہ گزر چکاہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو۔
8۔قاضی تقی الدین علی بن عبدالکافی السبکی الشافعی نے شرح المنہاج کے باب الوصیہ میں کہا:
"ومن كان من هؤلاء الصوفية المتأخرين ، كابن العربي وأتباعه ، فهم ضلاّل جهال ، خارجون عن طريقة الإسلام"
اور جو ان متاخرین صوفیہ میں سے ہے جیسے ابن عربی وغیرہ تو یہ گمراہ جاہل ہیں(جو) اسلام کے طریقے سے خارج ہیں۔(تنبیہ الغی ص 143)
9۔شمس الدین محمد العیز ری الشافعی نے اپنی کتاب"الفتاویٰ المنتشرۃ"
میں فصوص الحکم کے بارے میں کہا:
" قال العلماء : جميع ما فيه كفر لأنه دائر مع عقيدة الاتحاد.....الخ"
علماء نے کہا:اس میں سارے کا سارا کفر ہے کیونکہ یہ اتحاد کے عقیدے پر مشتمل ہے۔الخ(تنبیہ الغی ص 152)
10۔محدث برہان الدین البقاعی نے تکفیر ابن عربی پر تنبیہ الغی کے نام سے کتاب لکھی ہے جس کے حوالے آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں۔
معلوم ہوا کہ علماء اور جلیل القدر محدثین کرام کے نزدیک ابن عربی صوفی اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے لوگ گمراہ اور گمراہ کرنے والے ہیں۔جن علماء نے ابن عربی کی تعریف کی ہے یا اسے شیخ اکبر کے خود ساختہ لقب سے یاد کیا ہے ،اُن کے دو گروہ ہیں:
اول:جنھیں ابن عربی کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔
دوم:جنھیں ابن عربی کے بارے میں علم ہے ان کے تین گروہ ہیں:
اول:جوابن عربی کی کتابوں اور اس کی طرف منسوب کفریہ عبارات کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ یہ ابن عربی سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
دوم:جو تاویلات کے ذریعے سے کفریہ عبارات کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوم:جو ان عبارات سے کلیتاً متفق ہیں۔اس تیسرے گروہ اور ابن عربی کا ایک ہی حکم ہےاور پہلے دو گروہ اگر بذات خود صحیح العقیدہ ہیں تو جہالت کی وجہ سے لا علم ہیں۔
آخر میں عرض ہے کہ وحدت الوجود ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے جس کی تردید قرآن مجید،احادیث صحیحہ،اجماع،آثار سلف صالحین اور عقل سے ثابت ہے۔مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ أَن يَخسِفَ بِكُمُ الأَرضَ فَإِذا هِىَ تَمورُ ﴿١٦﴾... سورةالملك
"کیا تم بے خوف ہو اُس سے جو آسمان پر ہے کہ تمھیں زمین میں دھنسادے پھر وہ ڈولنے لگے؟"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے پوچھا((أين الله؟)) اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟اس نے جواب دیا:( فِي السَّمَاءِ) آسمان پر ہے ۔آپ نے پوچھا:میں کون ہوں؟اس نے کہا:آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس لونڈی کے مالک سے فرمایا:( أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)اسے آزاد کردو کیونکہ یہ ایمان والی ہے۔(صحیح مسلم :537،ترقیم دارالسلام :1199)
ابو عمرو الطلمنکی نے کہا:اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور معیت سے مراد اُس کاعلم(وقدرت)ہے۔(دیکھئے شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 144،145،ملخصاً)
وحدت الوجود کے قائل حسین بن منصور الحلاج الحلولی کے بارے میں تفصیلی تحقیق کے لیے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:21ص8۔11) (الحدیث:49)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب