میں نے اپنے استاد کے پاس ایک کتاب دیکھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ1۔کوا حلال ہے۔2۔فاتحہ کو پیشاب کے ساتھ لکھنا جائز ہے۔3۔نماز جنازہ میں قہقہہ لگانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔برائے مہربانی مجھے یہ حوالے درکار ہیں اس لیے لکھ کر بھیج دیے ہیں میں نے معسکر سے ٹریننگ لی ہے یہاں کافی دعوت کا کام جاری ہے آپ میرے سوالوں کے جواب ضرور دیں۔
(اسد اللہ ضلع نواب شاہ محل منو آباد نزد عبدالقادر پارک،اسپیشل ملک کون آئس کریم)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ان باتوں کا مُکلف بنایا ہے جوشریعت محمدیہ سے ثابت ہیں اس کے علاوہ جو بھی مسئلہ قرآن وسنت سے ٹکراتا ہے ۔وہ خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے علامہ کا ہی کیوں نہ ہو،قابل رد ہے ۔فقہ حنفی کے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا قرآن وسُنت کے ساتھ تضاد ہے۔ان کے ان مسائل میں سے آپ کے مطلوبہ مسائل بھی ہیں۔نمبروار جواب ملاحظہ فرمائیے۔
1۔کوا شریعت محمدیہ میں حرام ہے۔اس کا کھانا جائز نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فاسق قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
(بخاری 1/467مسلم 1/381،ترمذی 3/197 ابن ماجہ 2/1031(3087)
"اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچ اشیاء فاسق ہیں سانپ،کوا،چوہیا،کاٹنے والا کتا اور چیل۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
"وأما ( الغراب الأبقع ) فهو الذي في ظهره وبطنه بياض"1/381 غراب البقع سے مُراد وہ کواہے جس کی پشت یا پیٹ پر کچھ سفیدی ہو۔
یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جامع ترمذی میں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند احمد میں مروی ہے۔سب کا خلاصہ یہ ہے کہ کوا فاسق ہے۔
"عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔سانپ فاسق ہے،بچھو فاسق ہے،چوہیا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے۔قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کوا کھایا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کو فاسق کہنے کے بعد اسے کون کھاتاہے۔"
"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کوا کون کھاتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام فاسق رکھا ہے۔اللہ کی قسم کوا پاکیزہ چیزوں میں سے نہیں ہے۔"
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کوا فاسق ہے اور پاکیزہ چیزوں میں سے نہیں ہے لہذا اس کا کھانا حرام ہے۔شریعت مطہرہ کی ان تصریحات کے باوجود حنفی حضرات کے نزدیک کوا مفتی بہ قول کے مطابق حلال ہے اس کا کھانا پکانا بالکل درست ہے۔
موجودہ زمانہ کے مشہور متعصب حنفی مولوی محمد حبیب اللہ ڈیروی کا اس مسئلہ پر اردو زبان میں ایک مستقل رسالہ ہے جس کا نام"الشئی العجاب فی حلۃ الغراب"یعنی کوا حلال ہے۔اس میں مولوی حبیب اللہ ڈیروی نے موجودہ دیسی شہری کوا حلال قرار دیا ہے اور اسے فقہ حنفی کا مفتی بہ قول قراردیا ہے۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب البحر الرائق شرح کنز الدقائق 8/172 کے حوالہ سے لکھتا ہے :
"ونوع يخلط بينهما وهو أيضا يؤكل عند الإمام وهو العقعق لأنه يأكل الدجاج وعن أبي يوسف أنه يكره أكله لأنه غالب أكله الجيف, والأول أصح ""اور کوے کی ایک قسم دانہ اور مردار دونوں کھاتا ہے وہی کھایا جائے نزدیک امام اعظم کے اور اس کا نام عقعق ہے اس لیے کہ وہ مرغی کی طرح(گندگی اور دانہ) کھاتا ہے اور امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ اس کا کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ اس کی اکثر غذا گندگیوں کا کھانا ہے اور اول قول امام اعظم کا زیادہ صحیح ہے۔"(کوا حلال ہے ص4)
اسی طرح یہی بات فتاویٰ خانیہ برھامش فتاوی عالمگیری 3/391 طبع مصر کے حوالے سے لکھی ہے۔مولوی سرفراز صفدر نے اپنی کتاب اتمام البرہان کے ص 321 و322 میں مبسوط 11/226 اور عنایہ شرح ہدایہ 8/62 کے حوالہ سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہی درج کیا ہے کہ کوا حلال ہے۔
مولوی حبیب اللہ اپنے رسالہ "کوا حلال ہے" کے صفحہ 41 میں عقعق کا معنی شہری کوا لکھتا ہے۔اسی طرح اس کے دیسی وشہری ہونے کے دس حوالے درج کیے ہیں۔اور یہ بات بار بار لکھی ہے کہ یہ کوا جو ہمارے ارد گرد بیٹھتا ہے مفتی بہ قول کے مطابق حلال ہے،اس کا کھانا جائز ہے۔
علاوہ ازیں مولوی محمد نصیر الدین میرٹھی دیوبندی نے کوے کی حلت پر ساٹھ سے زائد حنفی علماء کے فتاویٰ پر مشتمل ایک کتاب بنام"فصل الخظاب فی تحقیق مسئلۃ الغراب" لکھی اور مفتی رشید احمد لدھیانوی کے فتاووں پر مشتمل کتاب"احسن الفتاوی" کی ساتویں جلد میں ص 439 تا458 میں اپنا فتویٰ اور مفتی محمد تقی کا فتوی"رفع الحجاب عن حکم الغراب" طبع ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حنفی دیوبندی حضرات کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق شہری کوا حلال ہے۔
نوائے وقت لاہور صفحہ 2 مجریہ 7اگست 1976ء کی رپورٹ کے مطابق جامعہ حنفیہ سلاں والی ضلع سرگودھا میں حکیم شریف الدین،قاری فتح محمد کراچی والے،قاری محمد صدیق جھنگ والے اور حافظ محمد ادریس کے متفقہ فیصلے کے مطابق کوے ذبح کرکے کھائے گئے اور فقہ حنفی کے فتویٰ پر مکمل عمل کیا گیا۔
پیشاب نجس وپلید ہے اس کے ساتھ قرآن مجید لکھنا حرام ہے:
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عام عذاب قبر پیشاب سے ہوتا ہے پس تم پیشاب سے بچو۔"
"دارقطنی 1/128،حاکم 1/183 وقال ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولااعرف لہ علۃ ولم یخر جاہ ووافقہ الذھبی)
"ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اکثر عذاب قبرپیشاب سے ہے۔"
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور مجھے اس کے ضعف کی کوئی علت معلوم نہیں۔شیخین نے اس کو نہیں نکالا۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تلخیص میں امام حاکم کی موافقت کی ہے۔
ان احادیث سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ پیشاب نجس وپلید ہے اور اس پلیدی سے اجتناب نہ کرنے کے باعث عذاب قبر ہوتا ہے اور اس کی مثال بھی حدیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی قبر دیکھ کر بتایا کہ انہیں عذاب ہورہا ہے جن میں سے ایک کو پیشاب سے اجتناب نہ کرنے کی بنا پر عذاب ہورہا ہے۔
لہذا جب پیشاب پلید اورنجس ہے اس کے ساتھ سورہ فاتحہ یا کوئی اور قرآنی آیت لکھنا بالکل حرام ہے اور قرآن مجید کی توہین ہے۔اس کے برعکس فقہ حنفیہ میں سورہ فاتحہ کو پیشاب کے ساتھ لکھنا جائز رکھا گیا ہے ۔فقہ حنفی کا یہ فتویٰ چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں بلخ کے ایک بہت بڑے حنفی فقیہ ابو جعفر ھندوانی کے استاد ابوبکر محمد بن احمد اسکاف کی طرف منسوب ہوکر شائع ہوا۔چنانچہ فتاوی قاضی خان باب الحظر والاباحۃ 4/365 میں موصوف سے منقول ہے:"اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہوتو اس نے اپنے ماتھے پر خون کے ساتھ قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابوبکر اسکاف نے کہا یہ جائز ہے کہا گیا اگر وہ پیشاب کے ساتھ لکھے تو اس نے کہا اگر اس میں شفاء ہوتوکوئی حرج نہیں۔"
یہی فتویٰ فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاوی سراجیہ باب التداوی ص:75،البحر الرائق شرح کنز الدقائق باب تنزح البئر بوقوع نجس ص:116،حموی شرح الاشباہ والنظائر باب القاعدہ الخامسہ الضرر لا یزال ص:108 اور رد المختار شرح الدر المختار المعروف فتاوی شامی باب التداوی بالمرم ص:147۔احناف کا یہ فتویٰ انتہائی غلط ہے اور قرآن مجید کی توہین ہے۔اعاذنا اللہ من ذلک۔
ایک بریلوی عالم مولوی غلام رسول سعیدی نے صحیح مسلم کی اردو زبان میں شرح لکھی ہے اسکی پہلی جلد میں"عبدالمجید شرقپوری برسٹل برطانیہ"کے تاثرات درج ہیں۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"فقہ کی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ علاج کی غرض سے خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ کولکھنا جائز ہے راقم الحروف نے اکثر علماء سے اس کے متعلق پوچھا مگر چونکہ یہ بات بڑے بڑے فقہاء نے لکھی ہے اس لیے سب نے اس مسئلہ پر سکوت اختیار کیا۔
علامہ سعیدی نے پہلی بار اس جمود کو توڑا وہ لکھتے ہیں:
"میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرہ میں ہے اگر کسی آدمی کو روز روشن سے زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفاء ہوجائے گی تب بھی اس کا مرجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ لکھنے کی جرائت کرے۔اللہ تعالیٰ ان فقہاء کو معاف کرے جو بال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے ان سے یہ قول شنیع سرزد ہوگیا ورنہ ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت وحرمت بہت زیادہ تھی۔"(شرح صحیح مسلم ج6 ص:557)
ملاحظہ ہو شرح صحیح مسلم جلد اول ص:66 مذکورہ بالا حوالہ سے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب یا خون سے لکھنا فقہ حنفی کےاندر جائز قرار دیا گیا تھا جس پر مولوی غلام رسول سعیدی نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے مرجانے سے بہتر قرار دیا۔یعنی مذکورہ فقہاء مثلاً قاضی خان،ابوبکر اسکاف،ابن نجیم المعروف ابوحنیفہ ثانی،علامہ سراج الدین ،حموی،ابن عابدین شامی اور فتاویٰ عالمگیری کو مر تب کرنے والے سینکڑوں حنفی اس فتویٰ کو لکھ کر اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال گئے ہیں۔ان کے لیے یہ فتویٰ دینے سے مرجانا بہتر تھا۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان حضرات کو فقہی جزئیات بیان کرتے ہوئے بال کی کھال اُدھیڑ نے کی عادت تھی جس کی بناپر انہوں نے بہت سے فضول اور لایعنی قسم کے فتاوے صادر کیے جس کی حقیقت فتاویٰ عالمگیری کے مطالعے سے واضح ہوجاتی ہے ۔اسی لیے ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ صحیح اور سیدھا دین قرآن وحدیث والا ہے اس کو مضبوطی سے تھامنے میں نجات ہے اللہ تعالیٰ اسی پر قائم ودائم رکھے ۔آمین!
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب