سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) کیا غیر محرم مرد کا عورت کے ساتھ خلوت جرم اور قابل سزا نہیں؟

  • 20880
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3017

سوال

(64) کیا غیر محرم مرد کا عورت کے ساتھ خلوت جرم اور قابل سزا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی غیر محرم مرد کوغیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اور رات گزارنے کی شریعت اسلامیہ میں اجازت ہے؟ بعض افراد کا کہنا ہے کہ محض خلوت ورات بسر کرنا کوئی جرم نہیں،نہ ہی شرع میں اس کی سزاہے۔قرآن و سنت کی روسے واضح کریں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ نے اُمت مسلمہ کو برائی سے بچانے کے لیے بہت سے اقدامات کئے ہیں تاکہ مسلم معاشرہ انتہائی اعلیٰ اقدار پر مرتب ہو اور ہر طرح کے فتنے سے بچا رہے لیکن شیطانی قوتیں اُمت مسلمہ کو نقصانات سے دوچار کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ ان کی چالوں میں سے ایک چال یہ ہے کہ مسلمانوں میں مرد وزن کا اختلاط عام کیا جائے اور اسلامی حد بندی ختم کر دی جائے تاکہ برائی بہت جلد پھیلے کیونکہ غیر محرم مردوں کا غیرمحرم عورتوں سے کھلے عام ملنا جلنا اور خلوت اختیار کرنا اگر عام کر دیا جائے تو اس معاشرے میں بہت برائیاں جنم لے سکتی ہیں،کیونکہ عورت کا فتنہ جس قدر نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔ شاید ہی کوئی اور فتنہ اس قدر نقصان دہ ہو۔بنی اسرائیل میں تباہی و بربادی کے جو اسباب تھے ان میں سے ایک اہم سبب عورت کا فتنہ ہے۔ یہ جب اپنی حدود(چار دیواری وغیرہ)سے نکل کر زیب و زینت سےآراستہ ہو کر کھلے عام نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں مختلف وساوس پیدا کر کے انہیں اس میں ملوث ہونے پر ابھارتا ہے۔ اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس فتنے سے بچنے کی تاکید فرمائی ۔ صحابی رسول ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ, وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا, فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ؟ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا, وَاتَّقُوا النِّسَاءَ, فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ, كَانَتْ فِي النِّسَاءِ))

(صحیح مسلم (2742)مسند احمد 3/22شرح السنہ 9/12)(2243)بیہقی7/91 مصنف عبدالرزاق 11/305،(20608)

"دنیا میٹھا سبزہ ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ تمھیں اس دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے وہ دیکھنے والا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو،

بے شک بنی اسرائیل کا فتنہ عورتوں میں تھا۔"

صحابی رسول اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ "

(بخاری (5096)کتاب النکاح باب مابتقی من شوم المراۃمسلم(2740)ترمذی (2942) مسند احمد 5/200)

"میں نے اپنے بعد اپنی اُمت میں مردوں پر عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔"

ان ہر دو احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں بہت سے فتنے اور آزمائشیں مسلمان آدمی پر وارد ہوتی ہیں اور ان آزمائشوں میں سب سے زیادہ آزمائش عورت کے فتنے کی ہے۔ اگر کوئی مرد عورت کے فتنے و فساد سے بچا رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی اجر کا مستحق ہوگا بلکہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے تلے ہوگا جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ:

"سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ الله في ظِلِّهِ يومَ لا ظِلَّ إِلا ظِلُّهُ "

(بخاری مع فتح الباری 1/168،2/126،مسلم کتاب الزکاۃ91ترمذی2391 ،نسائی 8/222مسند احمد 2/439ابن خزیمہ (358)شرح السنہ 2/354)

"سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔"

ان میں سے ایک آدمی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"ورجل دعتْه امرأة ذات منصب وجمال فقال : إني أخاف الله"(الحدیث)

"حسن و جمال والی عورت برائی کی دعوت دے تو وہ کہہ دے مجھے اللہ عزوجل سے ڈرلگتا ہے۔"

لہٰذا مسلمان آدمی کو عورت کے فتنہ سے بچنے کے لیے ہر طرح کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ جب عورت زیب و زینت سے آراستہ اور بناؤ سنگھارسے مزین ہو کرگھر سے باہر کھلے عام نکلتی ہے ۔توانسان کوشیطان پھنسانے کے لیے اس کے دل میں طرح طرح کے برےخیالات اور وساوس ڈالتا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مختلف اقدامات کئے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢ وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ... ﴿٣٣﴾... سورة الاحزاب

"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھن اجمعین  کو اس بات کی ہدایت کر دی کہ کسی آدمی سے نرم اور دبے لہجےمیں گفتگو نہ کرو تاکہ کوئی دل کا مریض کسی لالچ میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا:

"وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ "

"اور جب تم ان سے کسی فائدہ کا سوال کرو تو پردے کے پیچھے رہ کر سوال کرو۔"

یہاں اللہ تعالیٰ نے غیر مرد کو غیر عورت کے ساتھ بغیر حجاب کے گفتگو کرنے سے منع کر دیا۔ یہ حدود اور پابندیاں صرف اسی لیے عائد کی جا رہی ہیں کہ مرد و زن کا اختلاط نہ ہو۔ تاکہ کھلی آزادی ، آوارگی اور بے حیائی کا دروازہ نہ کھلے۔شریعت اسلامیہ میں کسی بھی غیر مرد کو غیر عورت کے ساتھ خلوت کی اجازت نہیں۔ایک مرتبہ خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابیہ میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ پھر فرمایا ہمارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس طرح کھڑے ہوئے جیسے میں تمھارے درمیان کھڑا ہوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا۔

"أَكْرِمُوا أَصْحَابِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَشْهَدْ ، وَيَحْلِفَ الرَّجُلُ ، وَلَا يُسْتَحْلَفَ ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ بُحْبُحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبَعْدُ ، وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ ، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ ، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ "

(شرح السنۃ 9/27۔(2253)ترمذی(2166)کتاب الفتن باب لزوم جماعۃ المسلمین حاکم 1/113،115،مسند احمد 1/81)

"میرے ساتھیوں کا اکرام کرو۔پھر اس کے قریب والوں کا پھر ان کے قریب والوں کا پھر جھوٹ ظاہر ہو جائے گا یہاں تک کہ آدمی قسم کھائے گا اور اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی گواہی دے گا اس سے گواہی مانگی نہیں جائے گی خبردار! جس کو جنت کا وسط پسند ہو وہ جماعت کو لازم پکڑے اس لیے کہ اکیلےکے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور وہ دو سے بہت دور ہوتا ہے اور کوئی مرد ہر گز کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے اس لیے کہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے جس شخص کو اس کی نیکی خوش کرے اور برائی بری لگے وہ مومن ہے۔"

اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا بالکل منع ہے۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ  شرح السنۃ میں لکھتے ہیں کہ:

"خلوة الرجل بالمرأة الأجنبية، والمسافرة بها حرام، فإن كانت من المحارم، فلا بأس بالمسافرة بها" (شرح السنۃ9/28)

"اجنبی عورت سے مرد کا خلوت کرنا اور اس کے ساتھ سفر کرنا حرام ہے۔اگر عورت محارم سے ہو تو پھر کوئی گناہ نہیں۔"

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

" لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ, وَلَا تُسَافِرُ اَلْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ " فَقَامَ رَجُلٌ, فَقَالَ: يَا رَسُولَ اَللَّهِ, إِنَّ اِمْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً, وَإِنِّي اِكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا, قَالَ: " اِنْطَلِقْ, فَحُجَّ مَعَ اِمْرَأَتِكَ "

(صحیح مسلم 2/978(1341)بخاری فتح الباری 9/242،5233،طبرانی کبیر،

11/335 مسند احمد (1934،3231،3232)

"کوئی مرد کسی عورت سے خلوت ہر گزنہ کرے مگر اس کے ساتھ اس کا محرم ہو اور عورت اپنے محرم کے علاوہ سفر نہ کرے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا یا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میری بیوی حج کرنے نکلی ہے اور میں فلاں فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو واپس چلاجا۔اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔"

اسی طرح ایک حدیث میں ہےکہ عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ".

(بخاری 9/330کتاب النکاح باب لا یخلون الرجل بامراۃ الا ذو محرم مسلم (2172) مسند احمد 4/149،153،ترمذی 1173 شرح السنہ 9/26(2252)

"عورتوں پر داخل ہونے سے بچو۔ ایک انصاری نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عورت کے مرد کی جانب سے جو رشتہ دار ہیں(دیور جیٹھ وغیرہ)ان کے متعلق بتائیں ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"حمو"موت ہے۔"

پہلی  حدیث سے معلوم ہوا کہ حج جیسی اہم عبادت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعورت کو تنہا جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس لیے اس کے شوہر صحابی کو کہا تم خود اس کے ساتھ جا کر حج کرو اور دوسری حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیور و جیٹھ وغیرہ کو اپنی بھابھی کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کو موت قراردیا ہے۔جب قریبی رشتہ دار مرد جو کہ غیر محرم ہیں ان سے تنہائی اختیار کرنے سے منع کیا ہے تو دیگر افراد جو کہ اس کے رشتہ دار بھی نہیں ان کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات کرنے بلکہ رات گزارنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"ألا لا يبيتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحا أو محرما"

(مسلم 4/1710(2171)باب تحریم الخلوۃبالا جنبیہ والدخول علہیما تاریخ بعداد 8/109التمہید 1/227بیہقی 7/98)

"خبردار!کوئی آدمی کسی ثیبہ عورت کے پاس ہر گز رات بسر نہ کرے سوائے خاوند یا محرم کے۔"

شرح صحیح مسلم میں ہے کہ:

"إنما خص الثيب لكونها التي يدخل إليها غالبا وأما البكر فمصونة متصونة في العادة مجانبة للرجال أشد المجانبة فلم يحتج إلى ذكرها ولأنه من باب التنبيه لأنه إذا نهى عن الثيب التي يتساهل الناس في الدخول عليها في العادة فالبكر أولى"

(شرح صحیح مسلم للنووی14/19)

"اس حدیث میں ثیبہ (شادی شدہ، مطلقہ ،بیوہ)عورت کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر ان عورتوں کے پاس آنا جانا ہوتا تھا اور کنواری لڑکی عادۃً اس سے محفوظ و مامون ہوتی تھی اور مردوں سے (اختلاط)سے سختی سے بچائی جاتی تھی۔اس لیے اس کے ذکر کی حاجت نہیں اس لیے کہ یہ تنبیہ کے باب سے ہے لہٰذا جب ثیبہ جس کے پاس آنے سے لوگ تساہل برتتےتھے کے پاس آنے سے منع کیا گیا تو کنواری لڑکی کے پاس آنا بالا ولیٰ منع ہوا ہے۔"

ان احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ غیر محرم مرد کو کسی غیر محرم عورت کے ساتھ سفر کرنا، اس کے پاس رات بسر کرنا اور خلوت و تنہائی اختیار کرنا حرام ہے اور ایسے فعل کا مرتکب ہونا واجب التعزیر ہے شریعت اسلامی میں بعض وہ جرائم ہیں جن کی سزا متعین ہے اور بعض وہ ہیں جن کی سزا کا تعین نہیں۔ اول صورت میں حدود کا نفاذ کیا جاتا ہے دوسری صورت میں تعزیر لگائی جاتی ہے فعل حرام کا مرتکب   واجب التعزیر ہوتا ہے دنیا میں اسے سزا دی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ -[13]-، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ "

 (بخاری کتاب الایمان مع فتح الباری 1/81(18)مسلم(1709)نسائی7/141

142،دارمی 2/220بیہقی 8/18،328،مستدرک 2/318)

"میری بیعت اس شرط پر کرو۔ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، چوری نہ کرو۔ زنا نہ کرو، اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، جو بہتان تم اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے آگے گھڑتے ہو نہ لاؤ اور معروف میں نا فرمانی نہ کرو جس نے تم میں سے وفاداری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان اشیاء کا مرتکب ہواوہ اس کی دنیا میں سزا دی جائے گی۔اور وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گا اور جو ان اشیاء کا مرتکب ہواپھر اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔ اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے سزا دے۔ ہم نے ان شروط پر آپ کی بیعت کر لی۔"

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا عام ہے جو کہ ہر قسم کے جرم کی سزا کو شامل ہے۔ خواہ وہ حدود سے ہو یا تعزیر سے یا قصاص سے متعلق لہٰذا شرع میں جرم کی سزا ہے تو جو شخص ایسے افعال قبیح کا مرتکب ٹھہرے تو حاکم وقت کو اس پر اس کی سزا جاری کرنی چاہیے ہمارے ملک کے بعض ججوں نے جو یہ بات کہی کہ غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت کرنا کوئی جرم نہیں بالکل غلط ہے اور شرعی علوم سے ناواقفیت  لاعلمی اور عدم  تفقہ کامنہ بولتا ثبوت ہے ایسے افراد کو جو شرعی علوم سے ناواقف ہوں اور ان کی حالت خلاف شرع ہو۔ عدالت کی کرسی پر بٹھانا اسلامی عہد و قضاء کی توہین ہے۔ عدالت کا قاضی و جج وہ ہونا چاہیے جو شرعی علوم میں مہارت تامہ رکھتا ہو اور اس کی اپنی حالت بھی شریعت اسلامیہ کے مطابق ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کا نظام مغربی جموریت پر مبنی اور انگریزی قوانین پر مشتمل ہے اور جج حضرات بجائے اس کے کہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کریں وہ انگریزی قوانین کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے فیصلے سناتے ہیں انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الحدود۔صفحہ نمبر 512

محدث فتویٰ

تبصرے