سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) کیا وراثت میں لڑکے اور لڑکی کا حصہ برابر ہے؟

  • 20878
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1494

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کی روسے اسلام نے بیٹی کو بیٹے کی نسبت میراث میں آدھا حصہ دیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اسے غیر منصفانہ قراردیتے ہیں جبکہ ابھی حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شائق عثمانی نے قرآن کے اس حکم کو تبدیل کرنے اور اجتہاد کرنے کی بات کی ہے۔ کیا قرآن مجید کا یہ حکم غیر منصفانہ اور مساوات مرد و زن کے خلاف ہے نیز کیا قرآن و سنت کے واضح اور صریح احکام اور نصوص میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے؟(عبد اللہ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دور حاضر میں یہود ونصاریٰ مسلمانان عالم کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لیے آئے روز گمراہ کن اور شرانگیز نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ان نعروں میں آزادی نسواں ،مساوات مرد وزن ،منصوبہ بندی، انسانی آبادی کی فلاح و بہبود وغیرہ کی آڑ لے کر شیطانی تہذیب کے دلدادہ اور رسیاہمہ تن مصروف عمل ہیں تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل اور خواتین کو ہدف بنا کر گھر گھر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بغاوت کو عام کر دیا جائے ۔ مغربی تہذیب کی آشوب سامانیوں کو عام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے اور دانشوران سوء ججز اور وکلاء قسم کے لوگ بھی اس کار شر میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ان وکلاء اور دانشوران سوء نے منتشرقین کے زیر تربیت اسلامیات کی ڈگریاں لی ہوتی ہیں اس لیے یہ بھی یہود و ہنود کی زبان بولتے ہیں اور رب العالمین کے مبنی برانصاف احکامات پر دشنام طرازیاں اور زبان طعن دراز کرتے ہیں۔اوراپنے آپ کو احکم الحاکمین کی بہ نسبت مخلوق کا زیادہ  خیر خواہ قراردیتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو جس قدر حقوق دئیے ہیں اس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں ملنی مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ اسلام سے قبل عورت کو جس ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ قرآن حکیم نے اس کا نقشہ یوں کھینچاہے۔

﴿وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالأُنثىٰ ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ ﴿٥٨ يَتَو‌ٰرىٰ مِنَ القَومِ مِن سوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَيُمسِكُهُ عَلىٰ هونٍ أَم يَدُسُّهُ فِى التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحكُمونَ ﴿٥٩﴾... سورةالنحل

"اور ان میں سے جب کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل میں گھٹنے لگتا ہے ۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتاہے۔ سوچتا ہے کیا اس ذلت کو لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے؟کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔"

اس آیت کریمہ میں یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔کہ اسلام سے قبل عورت قعر مذلت میں گری ہوئی تھی۔ اسلام نے اسے عزت ووقار اور عفت و عصمت کا حسین لبادہ پہنایا اور اسے ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے اعتبار سے بہت سے حقوق عطا کئے ہیں۔اسے ذلت و نامرادی سے نکال کر احترام ووقار کی وادی میں داخل کر دیا۔ لیکن مغربی اقوام اور مغرب زدہ بے راہ روافراد کو یہ بات گوارا نہ ہوئی۔ انھوں نے حقوق نسواں کے نام سے اسے حجاب اسلامی سے نکال کر سر بازار عریاں کردیا۔ سیکولر اور لبرل معاشرے کے افراد نے عورت کے ان حقوق کو جو اسے اسلام نے عطا کیے ۔ ہدف تنقید بنایا۔ معترضین نے عورت کی سر براہی ، مردوں کے ساتھ اختلاط ، معاشی اور معاشرتی زندگی میں آزادنہ ماحول ،دیت و شہادت ، حجاب دستراور وراثت کے حکام کو اچھالا اور فضول و لایعنی قسم کے اعتراضات کئے اور انہیں ظلم و ناانصافی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ ایسے افراد نے ہمیشہ عورت کو اس کے اصلی حقوق سے محروم رکھا ہے بالخصوص وراثت کے احکام کو بہت زیادہ پامال کیا ہے۔ اسلام سے قبل عورت وراثت سے بالکل محروم تھی۔ ان کے ہاں یہ تصور تھا کہ عورت نہ تو جنگ میں حصہ لے سکتی ہے اور نہ ہی اپنے خاندانی افراد کا تحفظ و دفاع کر سکتی ہےلہٰذا وہ خاندان کی دولت کی وارث کیسے بن سکتی ہے۔ امام سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ  اور امام قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے۔کہ:

"كان المشركون يجعلون المال للرجال الكبار، ولا يورثون النساء ولا الأطفال شيئا، فأنـزل الله: (لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) "

(تفسیر ابن کثیر 1/494۔498)تفسیر ابن ابی حاتم3/872)

"مشرکین مال بڑے مردوں کے لیے مقرر کرتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کووراثت میں سے کچھ نہیں دیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔"مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہوخواہ تھوڑا ہو یا زیادہ حصہ (اللہ کی طرف سے)مقرر ہے")

اس سے معلوم ہوا کہ قبل از اسلام عورت وراثت سے محروم رکھی جاتی تھی

تو اسلام نے آکر عورت کو حق وراثت دلوایا اور مختلف اعتبارات سے اس کے حقوق کو مقرر فرما دیا۔ یہود و نصاریٰ نے بھی عورت کے اس مسئلہ میں بے انصافی سے کام لیا ہے اگرچہ ان کے ہاں عورت کا حق وراثت ہے لیکن عورت کے لیے اپنے ہی خاندان میں شادی کا حکم لگا کر عملاًاس حق کو ختم ہی کر دیا ہے جیسا کہ پرانے عہد نامہ میں کتاب گنتی باب 36آیت 6،7،8،میں ہے کہ:

"سوصلافحاد کی بیٹیوں کے حق میں خداوند کا حکم ہے کہ وہ جن کو پسند کریں ان ہی سے بیاہ کریں لیکن اپنے باپ دادا کے قبیلہ ہی کے خاندانوں میں بیاہی جائیں۔ یوں بنی اسرائیل کی میراث ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں نہیں جانے پائے گی کیونکہ ہر اسرائیلی کو اپنے باپ دادا کے قبیلے کی میراث کو اپنے قبضہ میں رکھنا ہو گا۔"

بائبل کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے عورتوں کے اوپر اپنے ہی خاندان میں نکاح کی پابندی لگا کر اسےخود آزادی اور وراثت کے اصل قانون سے محروم کر دیا۔لیکن ان کر پروروہ حضرات جو اسلام کی حقیقی  تعلیمات سے نابلد اور نا آشنا ہیں وہ اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی قوانین و احکام پر معترض ہوتے ہیں۔حالانکہ ذات باری تعالیٰ عادل و منصف ہے اور عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا کوئی قانون بھی ظلم و تعدی پر مبنی نہیں ہے اسلام نے  وراثت کے بارے میں جتنے قوانین ذکر کئے ہیں تمام عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کا حق ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ...﴿١١﴾... سورةالنساء

"اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تقسیم وراثت کا ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہو جائے تو اس کے ورثاء میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو تقسیم اس طرح ہو گی کہ جتنا حصہ دولڑکیوں کو ملے گا اتنا حصہ اکیلے ایک لڑکے کا ہو گا ۔یہ تقسیم مبنی برانصاف ہے اس میں ظلم و تعدی کو ذرہ برابر بھی دخل نہیں۔ اسلام کے خاندانی نظام میں معیشت کی تمام تر ذمہ داری مرد کے کندھوں پر ہے۔ عورت کو نظام معیشت سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے اور مرد پر عورت کے علاوہ اس کے بچوں بوڑھے والدین اور دیگر ضروریات کا بھی بوجھ ہے بلکہ حق مہر کی صورت میں بھی عورت کے پاس مال آتا ہے اور اس کی ادائیگی بھی مرد کرتا ہے علاوہ ازیں عورت اپنے باپ ، بھائی خاوند اور بیٹے سے بھی حق وراثت باقی ہے مگر اس کا اپنا خرچ اس کے ذمہ نہیں۔ اس کو جو مال وراثت میں حاصل ہوتا ہے وہ اس کے پاس محفوظ ہے۔ چاہے اسے کاروبار میں لگائے یا جمع کر کے رکھ چھوڑ ے۔غرض جیسا چاہے اس مال میں تصرف کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے مرد کو عورت کی نسبت دگنا مال دیا ہے اس لیے اگر عورت کا حصہ نصف کی بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پرظلم تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کیا کیونکہ وہ عادل و منصف ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم و علیم بھی ہے۔ اس کے فیصلے درست ہوتے ہیں جن میں ذرہ برابر بھی ظلم و ناانصافی کو دخل نہیں ہوتا۔

اگر دونوں کا وراثت میں حصہ برابر ہوتا تو عورت کی بجائے مرد یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ میرے اوپر معاشی بوجھ اور ذمہ داریاں ہیں عورت کو بھی اس بار گراں میں شریک کیا جائے اور کچھ ذمہ داریاں اس  ڈال دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذمہ داریوں کے تعین کے اعتبار سے اسلام کا نظام وراثت فطری اور منصفانہ ہے۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اعلام الموقعین 2/113میں یہ وجہ ذکر کی ہے کہ وراثت کا تعلق معاشی ذمہ داری کے ساتھ ہے۔بیٹا بیٹی کے مقابلے میں باپ کی مالی و معاشی خدمت زیادہ سر انجام دیتا ہے لہٰذا اس کو باپ کے ترکے میں سے بھی زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ اسلام کے نظام وراثت میں بعض صورتیں ایسی ہیں کہ مرد اور عورت کو برابر حصہ دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ مِمّا تَرَكَ إِن كانَ لَهُ وَلَدٌ...﴿١١﴾... سورةالنساء

"میت کے ماں اور باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس میت کی اولاد ہو۔"

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ میت کی اولاد کی صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کا برابر حصہ ذکر کر دیا ہے۔ اور بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میت کے ورثاء میں ایک بیٹی اور دوبھائی ہیں تو ایک بیٹی ترکے کا نصف حصہ لے گی اور باقی نصف دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اس طرح یہاں میت کے بھائی کے مقابلہ میں بیٹی زیادہ حصہ لے رہی ہے اس لیے کہ وراثت میں زیادہ قریبی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں وراثت کے معاملہ میں عورت سے کہیں بھی ظلم و ستم اور نا انصافی سے کام نہیں لیا گیا۔ کہیں مرنے والے کے ساتھ عورت کو زیادہ قربت کی بنا پر اہمیت دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف مرد کی معاشی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے۔اس بنیاد پر وراثت میں عورت کا حصہ کہیں کم اورکہیں زیادہ دے کر عدل و مساوات کی مثال قائم کر دی گئی ہے لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شائق عثمانی کی بات اسلام کے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ توہین احکم الحاکمین بھی ہے جس پر انہیں سچی توبہ کرنی چاہیے بلکہ ایسے مغرب زدہ اور بے راہرو افراد کو کرسی عدالت پر فائز کرنا خود غیر منصفانہ اور ظالمانہ فیصلہ ہے اور کرسی عدالت کی توہین ہے۔

رہا قرآن حکیم کی واضح نصوص اور احکام صریحہ میں اجتہاد کا دروازہ کھولنا ،یہ سراسر عبث اور لغوبات ہے۔حنفی علماء کے ہاں تو اجتہادو قیاس کا دروازہ چوتھی صدی ہجری سے بند ہو چکا ہے۔ جیسا کہ علامہ عبد الحئی لکھنؤی حنفی نے سباحۃ الفکر فی الجہر بالذکر ص190، 191،میں لکھا ہے کہ:

"على أنَّ القياس بعد الأربع مائة منقطع، فليس لأحد بعدها أن يقيس مسألة على مسألة[120] - كما صرَّح به العلامة زين ابن نجيم[121] في رسائله "

"قیاس چار صدیوں کے بعد سے منقطع ہے اس کے بعد کسی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں کی ایک مسئلے کو دوسرے مسئلے پر قیاس کرتا رہے جیسا کہ علامہ ابن نجیم نے اپنے رسائل میں ذکر کیا ہے۔"

جبکہ اہلحدیث کے ہاں مسائل منصوصہ میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں لیکن وہ مسائل جو صراحتاً کتاب وسنت سے ثابت نہیں ان کے بارے میں کتاب وسنت سے استدلال کیا جاتا ہے۔اس شرط کے تحت وہ علماء جو کتاب وسنت کے فہم سے منور ہیں اور عربی لغت نحوو صرف وغیرھا جیسے فنون کے ماہر ہیں۔ ان کے لیے اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"لا اجتهاد في القطعيات"(ارشاد الفحول ص371)

"وہ مسائل جو نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں ان میں اجتہاد نہیں۔"

میرےشیخ حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ تلخیص الاصول ص77،78،میں رقم طراز ہیں کہ:

"كل ما ثبت بدليل لم يقطع بثبوته ولا بدلالته واختلف العلماء فيه هو مجال الاجتهاد ، وكذلك الوقائع والنوازل التي لم تشملها الأدلة نصاً ولم يسبق البحث فيها  وأما ما أجمعوا عليه مما دلت عليه النصوص قطعاً ، فلا يجوز فيه الاجتهاد".

"ہر ایسا مسئلہ جو ایسی دلیل سے ثابت ہو جو ظنی الثبوت اور ظنی الدلالت ہو اور اس میں علماء کا اختلاف ہو۔ وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے اور اسی طرح ایسے حالات و واقعات جو نصوص سے ثابت نہ ہواور نہ ان میں بحث کی گئی ہو۔ لیکن وہ اجماعی مسائل جن پر کتاب و سنت کی قطعی ادلہ موجود ہیں ان میں اجتہاد جائز نہیں۔"

نیز ملاحظہ ہو:الاحکم للاترمذی 3/206،المستصفیٰ للغزالی 2/354،اصواالفقہ لمحمدسلام ص344،الاجتہاد للدکتورعبدالمنعم ص 29۔30،1ھ،الفقہ للزحیلی 2/1053۔

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جس مسئلہ میں کتاب و سنت کی صریح ادلہ موجود ہیں وہاں اجتہاد کی گنجائش نہیں لیکن وہ مسائل جو صراحتاً ثابت نہ ہوں ان کے لیے کتاب و سنت سے استدلال کیا جاتا ہے اور وراثت کا یہ مسئلہ کتاب و سنت کی نصوص صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ ایسے مسائل میں اجتہاد کا دروازہ کھولنا بے دینی اور الحاد کو راہ دینا ہے اور جو لوگ ایسے مسائل میں اجتہاد کی راہ نکال رہے ہیں وہ گمراہ اور دجال ہیں۔اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔         

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الميراث۔صفحہ نمبر 495

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ