سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) غیر وارث کے لیے وصیت

  • 20877
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1125

سوال

(61) غیر وارث کے لیے وصیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔والد گرامی نے بعد وصال اپنے ترکہ میں ایک مکان جدی تقریباً پونے 6مرلہ اور ذاتی خرید میں ایک چھوٹا سا مکان تقریباً (پونے پانچ )مرلہ ایک بنک بلڈنگ )ذاتی خرید تقریباً سوادو مرلہ چھوڑا ہے۔

2۔ہم اس وقت 2،بھائی (جمیل احمد، جلیل احمد) 4،بہنیں اور والدہ ہیں ہم دونوں میاں بیوی (جمیل احمد و بیگم )کے پاس والدین تھےوالد گرامی نے وصیت کی کہ جدی مکان سب بہن بھائی آپس میں تقسیم کر لیں اور اسی طرح بنک (بلڈنگ)بھی تقسیم کر لیں۔

3۔زندگی میں (اپنی حیاتی میں)انھوں نے کہا کہ چونکہ میاں بیوی ہم ابھی زندہ ہیں لہٰذا چھوٹا مکان (پونے پانچ مرلہ)ہم اپنے حصہ میں رکھتے ہیں۔

4۔اس چھوٹے مکان کو پھر لکھا کہ ہم میاں بیوی نے جو پونے 5 مرلہ کا چھوٹا مکان رکھا ہے ہم دونوں کی علیحدگی (فوتگی)کے بعد مسمی جمیل احمد اور اس کی اہلیہ زاہدہ کو ملکیت کر دی گئی۔ یہ میں نے ان دونوں میاں بیوی پر تمام تر مہمانوں ،رشتہ داروں کے بوجھ کی بنا پر کیا ہے۔ چونکہ یہ مکان میری ذاتی خرید کردہ جائیدادہے لہٰذا مجھے حق پہنچتا ہے کہ جمیل اور زاہدہ کو ہم بوڑھوں کی خدمات کے عوض ہی سہی ۔ لہٰذا اس مکان کو تخصیص اور ممیز قراردیا جائے۔ ہمارے بعد دونوں میاں بیوی (جمیل ،زاہدہ )اسے اپنے تصرف وملکیت میں رکھ سکیں گے۔

سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹا مکان ہم میاں بیوی کو باقی جائیداد کے علاوہ مل سکتا ہے یا کس طرح تقسیم ہو گی؟ یا کیسے حصہ ملے گا؟اور والدہ کا حصہ کس طرح ہو گا؟تحریری فتویٰ درکار ہے۔(جمیل احمد ،زاہدہ خانم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت جو مال چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوتی ہے خواہ وہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ اسے ترکہ یا وراثت کانام دیا جاتا ہے اور اس کی تقسیم سے قبل میت کی جانب سے اگر کوئی وصیت ہو یا قرض ہو تو اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصى بِها أَو دَينٍ...﴿١١﴾... سورةالنساء

(مفروضہ حصص اس وقت نکالے جائیں گے)جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو۔ پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہوادا کر دیا جائے اور یہ بھی یاد رہے کہ وصیت غیر وارث کے حق میں زیادہ سے زیادہ 3/1تک کی جا سکتی ہے۔ وارث کے لیے وصیت کرنا درست نہیں۔اس لیے کہ ورثاء کے حصص اللہ وحدہ لا شریک نے متعین کر دئیے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ "

(سنن دارمی کتاب الوضایا باب الوصیہ للوارث (3262)ص302ج2)

"خبرداریقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔"

یہی حدیث مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ  ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  ، دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ ، بزار رحمۃ اللہ علیہ  اورطبرانی رحمۃ اللہ علیہ  میں بھی موجود ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح بخاری کتاب الوصایا باب الوصیہ بالثلث میں(رقم الحدیث 2743۔2744)میں واضح کر دیا ہےکہ ثلث

(ایک تہائی)مال کی وصیت کی جا سکتی ہے اور ثلث بہت زیادہ ہے لہٰذاتقسیم وراثت سے قبل مرحوم محمد رحمت کی وصیت کے مطابق زاہدہ خانم کو ثلث مال کی وصیت لازم ہوگی اور جو چھوٹا مکان انھوں نے اس کے نام وصیت کیا تھا کل مال کا 3/1)ہے یہ تو اسے ضرور ملے گا اس سے اسے لا تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کا حق شرعی ہے۔ اس کے ساتھ جو اس بیوی کا خاوند ہے وہ چونکہ میت کا وارث ہے اس کا حصہ متعین ہے اور اس کی بیوی چونکہ میت کی غیر وارثہ ہے وصیت صرف اس کے حق میں ہو گی ۔ زاہدہ خانم کا خاوند وصیت میں شامل نہیں سمجھا جائے گا ۔ میت نے اگر وصیت میں ان کانام لیا بھی ہو تو زاہدہ کے حصہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ باقی مال سے بیوی کے لیے 8/1حصہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَكتُم...﴿١٢﴾... سورة النساء

اولاد کی صورت میں بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اولاد کی تقسیم لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ کے تحت ہو گی النساء: 11)یعنی ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کی مثل حق ملے گا۔

نوٹ:جمیل احمد زاہدہ خانم کے حصہ کو اس سے چھین نہیں سکتا اور اگر زاہدہ خانم جمیل صاحب کی زندگی میں وفات پا جائے تو زاہدہ  کی وارثت سے جمیل کو شرعی حصہ ملے گا۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الميراث۔صفحہ نمبر 493

محدث فتویٰ

تبصرے