میرے پاس کچھ رقم ہے جسے میں نے بطور امانت بینک میں رکھا ہے اور بینک کے علاوہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میں یہ رقم بطور امانت رکھ سکوں ۔کیا میرا یہ عمل درست ہے؟میری کتاب وسنت کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ میرا ایک عزیز بینک میں کلرک ہے۔ اس کی یہ نوکری درست ہے کہ نہیں۔"(جنید سرگودھا)
بینک میں رقم کو بطور امانت رکھنا درست نہیں خواہ آپ اس پر سود نہ لیتے ہوں کیونکہ بینک اس رقم کو سودی امور پر استعمال کرتا ہے اور یہ گناہ پر تعاون کرنا ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون نہ کیا کرواوراللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔"
اگر کوئی شخص بینک کے علاوہ کوئی اور جگہ امانت رکھنے کے لیے نہ پائے تو اس مجبوری کی بنا پر اتنی دیر تک بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں اپنی رقم رکھ لے جب تک اس کا صحیح انتظام نہیں ہو جاتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اللہ تعالیٰ نے جو تمھارے اوپر حرام قراردیا ہے اس کی تفصیل تمھارے لیے بیان کر دی گئی ہے الایہ کہ تم کسی بات پر مجبورہو جاؤ۔"
اور جب اس کے لیے آپ کو کوئی صحیح جگہ مل جائے تو آپ اپنی رقم بینک سے نکلوالیں اور اس کو صحیح مقام پر منتقل کر دیں تاکہ گناہ پر تعاون سے بچ جائیں۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ بینک کی ملازمت کرنا حرام ہے۔ اس کے بارے میں ایک حدیث صحیح درج کرتا ہوں۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
(مسلم (1598)شرح السنۃ 8/54)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے کھلانے والے اور اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لکھنے والا بھی لعنت کا مرتکب اور سود کھانے کھلانے والے کے ساتھ گناہ میں برابر ہے۔ اس لیے بینک کی نوکری کرنا کلرک و منیجر بنناحرام ہے اور سود خور کے ساتھ مل کرجو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرتا ہے وہ برابر کے گناہ میں شریک ہے لہٰذا یہ سروس ترک کر کے کوئی جائز و حلال سروس اختیار کرنی چاہیے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب