سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) سود سے توبہ کے بعد سابقہ سودی کاروبار کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے مال کا تصرف کیسا ہے؟

  • 20871
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1565

سوال

(55) سود سے توبہ کے بعد سابقہ سودی کاروبار کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے مال کا تصرف کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص سودی کاروبار کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی اور اس نے توبہ کر لی ہے اور اس کے پاس اس سودی کاروبار کا بہت سا مال موجود ہے۔کیا وہ مال استعمال کر سکتا ہے؟ کیونکہ جب اس نے یہ رقم حاصل کی تھی تو طرفین اس پر رضامند تھے اگر استعمال نہیں کر سکتا تو کیا کرے؟قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔(سائل محمد ابراہیم فورٹ عباس)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ دو حالتوں سے خالی نہیں ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ توبہ کے بعد بہت سی سودی رقم لوگوں کے ذمےہے ابھی تک ان سے نہیں لی گئی ۔ اس کا حل قرآن نے بیان کر دیا ۔ فرمایا:

﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورةالبقرة

"اگر تم نے توبہ کر لی تو تمھارے لیے تمھارے راس المال ہیں نہ تم کسی پر ظلم کرو۔(اس سے سود لے کر)اور نہ تم پر کوئی ظلم کرے(کہ تم کو اصل مال واپس دینے میں ٹال مٹول کرے یا اصل مال سے بھی کم کر دے۔)"(تفسیر قرطبی3/365)

حدیث ہے سلیمان بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرما رہے تھے:

"ألا إن كل ربا من ربا الجاهلية موضوع وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ"  (رواہ ابو داؤد)

"خبر دار! آج سے جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا ہے نہ کسی کو دیا جائے گا اور نہ کسی سے لیا جائے گا۔"

ان نصوص سے معلوم ہوا کہ جو ابھی تک نہیں لیا گیا اسے لینا حرام ہے صرف اپنا اصل مال واپس لے اور اگر واپس کرنے والا تنگ دست ہے تو اسے خوشحالی تک مہلت دے دینی چاہیے یا ویسے ہی اسے معاف کر دیا جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَإِن كانَ ذو عُسرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلىٰ مَيسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقوا خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٨٠﴾... سورةالبقرة

"اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو"

اور دینے والے کو بھی چاہیے کہ وہ اس کا اصل مال ہی واپس کرے۔ زیادہ مت دے نہ اسلام میں سود لینا اور نہ دینا ہی جائز ہے۔افسوس ہے کہ ہمارے مسلمان حکمران سود دینے والے کے لیے لوگوں سے دولت جمع کر رہے ہیں باقی یہ بات یاد رہے کہ طرفین کی رضامندی حرام کام کو حلال نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ زنا اور سدومی فعل ("سدوم"جناب لوط رحمۃ اللہ علیہ  کی بستی کا نام ہے۔سدومی فعل سے مراد وہ فعل ہے جس کا رتکاب ان کی قوم کرتی تھی)ہے بالکل سود بھی ایسے ہی ہے۔

"وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا" باقی ماندہ سود سے دستبردار ہو جاؤ۔اس آیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے۔"إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ "کی قید لگا دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کے اندر ایمان کی رتی بھی موجود ہے وہ سود نہ لے اور نہ دے ۔

دوسری صورت اس مسئلہ کی یہ ہے کہ اس نے سودی مال بہت سا اپنے پاس جمع کیا ہوا ہے۔اب توبہ کے بعد وہ اس مال کا کیا کرے ؟

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک قاعدہ کے تحت اس کا حل پیش کیا ہے۔

ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ چیز جو کسی فاسد عقد (سودے )سے حاصل کی گئی ہے۔ اس کو دو لحاظ سے دیکھا جائے گا۔ اگر تو عقد کرنے والا اس بیع (عقد )کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ عقد کی وجہ سے یا طرفین کی رضامندی کی وجہ سے جس چیز پر قابض ہوتا ہے تو وہ اس کا غاصب شمار ہوگا کیونکہ اس نے ایسی چیز حاصل کی ہے جس کے بارہ میں وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے اس لیے وہ اس کا مالک نہیں بن سکتا۔اور اگر عقد کرنے والا اس کو صحیح سمجھتا ہے جیسا کہ ذی لوگ خنزیر سود، شراب وغیرہ کی آپس میں بیع کرتے ہیں جو اس نے مسلمان ہونے سے پہلے کی بیوع (خریدو فروخت )سے رقم حاصل کی ہوتی ہے تو وہ اس کا راس المال شمار ہو گا۔ اسی طرح اگر مسلمان اجتہاد یا کسی کی تقلید کی بنا پر اس کو صحیح سمجھتے ہوئے بیع کرتا رہا ہے اور مال اس کے ہاتھ میں ہے تو وہ اس کا اصل مال ہی شمار ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨﴾... سورةالبقرة

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے باقی کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے یہ حکم نہیں دیا کہ جو پہلے بھی لیا ہواہے۔ اسے واپس کرو۔"

(مجموع فتاوی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  29/211،212،و تفسیر المنار رضا 3/97،98)

پہلی صورت میں جب کہ ایک مسلم جان بوجھ کر حرام کو حرام جانتے ہوئے پھر سودی کاروبار کرتا رہا بعد میں تو بہ کر لی۔ اب اس کے پاس اس حرام سودی کمائی کا مال موجود ہے اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے تو اس کاحل یہی ہے کہ وہ مال جس سے لیا ہے اس کو واپس کردے۔ کیونکہ لیتے وقت وہ جانتا تھا کہ میں کہ تعدی اور ظلم سے یہ مال حاصل کر رہا ہوں۔اب اگر وہ واپس کرنا ممکن نہیں ہے تو"لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ "(بقرہ) پر عمل ہوگا ۔اگرچاہے صدقہ کر دے اور سچے دل سے توبہ استغفار کرے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ سودی کاروبار کرتا رہے اور کہے بعد میں صدقہ کر دوں گا۔ یہ تو توبہ کے بعد اس کے لیے حلال اور جائز نہیں۔

اس صدقہ سے نیت یہ ہو کہ میں اس مال سے بچ جاؤں ۔ اس صدقہ سے نیکی ثواب اور تقرب الی اللہ کی نیت نہ ہو۔ کیونکہ حرام چیز سے ثواب اور تقرب الی اللہ حاصل نہیں ہوتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا"

"اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکیزہ چیز کو ہی پسند کرتا ہے۔"

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب البيوع۔صفحہ نمبر 455

محدث فتویٰ

تبصرے