ہماری ایک عزیز ہ کا نکاح کچھ عرصہ قبل ایک شخص سے پڑھا گیا لیکن رخصتی نہیں کی گئی کہ اس شخص نے اسے طلاق دے دی۔ اب دوبارہ دونوں گھرانے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس کی کیا شکل ہے اس میں رجوع ہو گا یا نیا نکاح پڑھاجائے گا۔(ایک سائل لوہاری لاہور)
ایسی عورتیں جن کو خاوند نے چھونے سے قبل ہی طلاق دے ڈالی ہو۔ ان کی عدت نہیں ہوتی۔ اس لیے رجوع کرنے والا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ طلاق رجعی کا تعلق عدت کے ساتھ ہے۔ یہ ایک طلاق بائنہ ہے اب از سر نو نکاح پڑھ کر دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں چھونے سے قبل طلاق دے ڈالو تو تمھاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں جس کے پورا ہونے کا تم مطالبہ کر سکو ۔ انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقےسے رخصت کرو۔"
اس آیت کریمہ میں عدت کے ساقط ہونے کا یہ مطلب ہے کہ مرد کا حق رجوع ختم ہو جاتا ہے اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کروا سکتی ہے۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں۔
"هذا أمر مجمع عليه بين العلماء : أن المرأة إذا طلقت قبل الدخول بها لا عدة عليها فتذهب فتتزوج في فورها من شاءت "(تفسیر ابن کثیر 3/548)"اس مسئلہ پر علماء کے درمیان اجماع ہے کہ جب عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر کوئی عدت نہیں طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔"
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مرد اگر اپنی بیوی کو چھونے سے قبل طلاق دے دے تو مرد کا حق رجوع باقی نہیں رہتا بلکہ ایک طلاق واقع ہو جاتی ہے اور اب اگر وہی آپس میں اکٹھے رہنا چاہیں اور ازدواجی تعلقات استوار کرنے کےخواہش مند ہوں تو از سر نو نکاح کر کے اپنی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب