سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) عورت کی عدت

  • 20865
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1020

سوال

(49) عورت کی عدت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت کتنی ہے اور وہ عدت کہاں گزارے نیز دوران عدت اسے کن امور سے لحاظ رکھنا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روسے جواب دیں ۔(ایک سائلہ گوالمنڈی لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَرونَ أَزو‌ٰجًا يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَعَشرًا ... ﴿٢٣٤﴾... سورةالبقرة

"اور تم میں جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں رکھیں ۔" 

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عدت وفات چار ماہ دس دن بیان فرمائی ہے۔یہ آیت کریمہ ہر طرح کی عورت خواہ وہ مدخولہ ہو یا غیر مد خولہ اورجوان ہو یا بوڑھی کی عدت وفات کو شامل ہے صرف حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ سورۃ الطلاق میں اس کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے۔

تو جب عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ اسی گھر میں عدت گزار ے گی جہاں اس کا خاوند فوت ہوا یا جہاں اس کے خاوند کی وفات کی خبر اس کے پاس پہنچی ۔

فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جو کہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بہن تھیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا کہ اس کا خاوند اپنے بھگوڑے غلاموں کی طلب میں نکلا تو اس نے طرف قدوم میں ان کو پالیا انھوں (غلاموں )نے اس کو قتل کر دیا ۔ اس کی وفات کی خبر آچکی ہے۔ پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا کہ اپنے گھر بنو خدرہ میں واپس چلی جاؤں جہاں میرے والدین رہتے ہیں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لیے اپنا ذاتی گھر کوئی نہیں چھوڑا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اولاً اسے رخصت دی پھر بلا کر فرمایا:

" امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ "

"تو اپنے اسی گھر میں ٹھہری رہ یہاں تک کہ عدی پوری ہو جائے۔"

تو انھوں نے وہاں پر چارماہ دس دن عدت گزاری ۔ فرماتی ہیں۔ جب عثمان بن ابی عفان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا دور خلافت آیا تو انھوں نے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے پیغام بھیجا ۔ میں نے انہیں اس بات کی اطلاع دی تو انھوں نے بھی یہی فیصلہ صادر فرمایا۔

(مؤطا امام مالک 1462ابو داؤد (2300) مسند احمد 6/370،420،421،الرسالہ للشافعی (1214) ترمذی (1204)دارمی 2/168مسند طیالسی (1664) موارد الظمان (1332) مستدرک حاکم 2/2908) رواء الغلیل (1231)

اس صحیح حدیث کی روسے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنی چاہیے جس گھر میں اس کا خاوند فوت ہو جائے یاجس گھر میں اسے خاوند کے فوت ہونے کی اطلاع آئے اور دوران عدت عورت کو زیب و زینت کرنا منع ہے۔جیسا کہ اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے مروی ہے۔

"إن امرأة توفي زوجها، فخشوا على عينيها، فأتوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستأذنوه في التكحل، فقال: لا تكتحل، قد كانت إحداكن تمكث في شراحلا صها أو شر بيتها فإذا كان حول فمر كلب رمت ببعرة - فلا ، حتي تمضي أربعة أشهر وعشرا "(بخاری 5338مسلم 1488) 

"ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا تو انہیں اس کی آنکھیں خراب ہونےکا ڈر لا حق ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرمہ کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا وہ سرمہ نہ لگائے (کیا وہ دور اچھا تھا جب جاہلیت کے زمانے میں) عورت ایک سال کے لیے خراب کپڑے یا برےسے جھونپڑے میں پڑی رہتی تھی جب سال پورا ہوتا تو وہ اونٹ کی مینگنی اس وقت پھینکتی جب کتا سامنے سے گزرتا (اگر کتانہ گزرتا تو وہ کم بخت اسی طرح پڑی رہتی)دیکھو چار ماہ تک سرمہ نہ لگائے۔"

"عن زينب بنتِ أبي سلمة رضي الله عنهما قالت : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ رضيَ اللهُ عنها ، زَوجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، حِينَ تُوُفِّيَ أبُوهَا أبُو سُفْيَانَ بن حرب رضي الله عنه ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةُ خَلُوقٍ أوْ غَيرِهِ ، فَدَهَنَتْ مِنهُ جَارِيَةً ، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ، ثُمَّ قَالَتْ : واللهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ ، غَيْرَ أنِّي سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقُولُ عَلَى المِنْبَرِ : " لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أنْ تُحِدَّ على مَيِّتٍ فَوقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ ، إلاَّ علَى زَوْجٍ أرْبَعَةَ أشْهُرٍ وَعَشْراً " ، قالَتْ زَيْنَبُ : ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بنْتِ جَحْشٍ رضي اللهُ عنها حينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ : أمَا وَاللهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ ، غَيرَ أنِّي سَمِعْتُ رسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقُولُ عَلَى المِنْبَرِ : " لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أنْ تُحِدَّ على مَيِّتٍ فَوقَ ثَلاَثٍ، إلاَّ علَى زَوْجٍ أرْبَعَةَ أشْهُرٍ وَعَشْراً "

(بخاری 5338،5345،5334،1281)مسلم (1486) ابو داؤد (2299) ترمذی 500نسائی 6/201احمد 6/235،326،426)

"زینب  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں میں اُم حبیبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس اس وقت آئی جب ان کے باپ ابو سفیان فوت ہوئے تو اُم حبیبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے زرد رنگ کی خوشبو وغیرہ منگوائی تو اس میں سے کچھ ایک چھوٹی بچی کو لگائی ۔ پھر اپنے رخساروں پر لگائی پھر فرمایا اللہ کی قسم مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں (کیونکہ وہ بیمارتھیں )مگر میں نے اس لیے لگائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے اور قیامت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے اوپر سوگ کرے سوائے بیوی کے کہ وہ چار ماہ دس دن سوگ کرے۔"

ان احادیث صریحہ سے معلوم ہوا کہ ایسی عورتیں جن کے خاوند وفات پا جائیں وہ دوران عدت زیب و زینت مثلاً خوشبو لگانا سرمہ ڈالنا نیا لباس پہننا زیورات زیب تن کرنا وغیرہ جیسے امور سے اجتناب کریں اور جس گھر میں خاوند فوت ہوا ہو اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزارے یا وہاں جہاں اسے خاوند کی فوتگی کی اطلاع ملے، اس کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر جا سکتی ہے۔ یا نئی شادی کرنی ہو تو کروا سکتی ہے دوران عدت ان امور سے اجتناب لازم ہے۔(مجلۃ الدعوۃ جنوری 1998ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الطلاق۔صفحہ نمبر 425

محدث فتویٰ

تبصرے