سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) وٹہ سٹہ کی شادی

  • 20862
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2568

سوال

(46) وٹہ سٹہ کی شادی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرے میں بے شمار رسم و رواج ایسے ہیں کہ ان سے نجات پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور خاندان و کنبہ والے افراد سے بائیکاٹ کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے اس معاشرے میں رہتے ہوئے نکاح کے مسائل میں سے ایک مسئلہ درپیش ہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی کا شرعی طور پر کیا حکم ہے کتا ب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔(سائل سندھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح وٹہ سٹہ کو شرعی طور پر شغار کہا جاتا ہے اور شغار کی ممانعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی کئی ایک احادیث میں موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

( لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ )

"اسلام میں نکاح شغار (وٹہ سٹہ)نہیں ہے۔"

(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ 2/1035،(1415)مسند احمد 2/91،35)

یہ روایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس طرح بھی مروی ہے کہ:

"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الشِّغَارِ "

(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ 2/1034،(1415) مؤطا الامام مالک ،باب جامع مالا یجوز من النکاح (124)کتاب الام للشافعی 5/76صحیح بخاری ، کتاب النکاح باب الشغار (5112) و کتاب الحیل (6960)ابو داؤد کتاب النکاح باب الشغار (2074) ابن ماجہ (1883) ٍٍٍٍمسند احمد 6/197،35،62)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح شغار (وٹہ سٹہ) سے منع فرمایا۔"

نیز یہی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے صحیح مسلم سنن نسائی، ابن ماجہ ، ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں بھی مروی ہےاور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ابن ماجہ ، ابن حبان اور مسند احمد میں، عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ترمذی ، ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  وابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  مسند طیالسی اور مسند احمد میں، جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مسلم ، بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  اور مسند وغیرہ میں موجود ہے۔

غرض اس صحیح ترین حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی شرعی طور پر ناجائز و حرام ہے اور نکاح شغار کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کی زیر ولایت ہو اس شرط پر کسی سے بیاہ دے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کی زیر ولایت ہو۔ اس کے خاندان کے کسی مرد سے بیاہ دے۔ اور یہ شرط شرعاً ناجائز ہے کیونکہ ایسی کوئی شرط کتاب وسنت میں موجود نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:

"كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَهُوَ بَاطِلٌ"

 "ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے"

مسند احمد 2/213،183 نیز بخاری ، کتاب البیوع ، باب اذااشتراط فی البیع شرطا لا تحل (2168) صحیح مسلم کتاب العتق (1504) وغیرہ میں یہ حدیث اس طرح مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ ، وَإِنْ كَانَ مِائَةُ شَرْطٍ"

"ایسے لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔؟ایسی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں وہ باطل ہے اگرچہ وہ سو(100)شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔"

"لا يحل نكاح الشغار: وهو أن يتزوج هذا ولية هذا على أن. يزوجه الآخر وليته أيضا، سواء ذكرا في كل ذلك صداقا لكل واحدة منهما اولاحداهما دون الاخريٰ اولم يذكرافي شئي من ذلك صداقا كل ذلك سواء"  (المحلیٰ9/118)

"نکاح وٹہ سٹہ حلال نہیں اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی زیر ولایت لڑکی سے اس شرط پر شادی کرے کہ دوسرا آدمی بھی اپنی زیر ولایت لڑکی کو اسی طرح اس کے ساتھ بیاہ دے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ انھوں نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مہر ذکر کیا ہویا نہ کیا ہو یا ایک کامہر ذکر کیا ہواور دوسری کا نہ کیا ہو۔ یا دونوں میں سے کسی کا بھی حق مہر ذکر نہ کیا ہو۔ یہ تمام صورتیں برابر ہیں۔"

البتہ شغار (وٹہ سٹہ )کی جو تفسیر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں آئی ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی اس شرط پر دوسرے کو بیاہ دے کہ وہ اپنی بیٹی اسے بیاہ دے گا تو ان دونوں کا مہر نہ ہو تو یہ نافع رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے جیسا کہ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کتاب الحلیل (6960)میں ہے کہ عبید اللہ( راوی حدیث ) فرماتے ہیں۔

"قلت لنافع: ما الشغار؟، قال: ينكح ابنة الرجل وينكحه ابنته بغير صداق، وينكح اخت الرجل وينكحه اخته بغير صداق"

"میں نے نافع سے کہا شغار کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کسی آدمی کی بیٹی سے اس طرح نکاح کرے کہ دوسرا اسے اپنی بیٹی نکاح کر دےاور درمیان میں مہر نہ ہواور آدمی کی بہن سے اس طرح نکاح کرے کہ وہ اسے اپنی نکاح میں دے دے اور درمیان میں حق مہر نہ ہو۔"

اگرچہ شغار کی اس تعریف میں یہ اختلاف کیا گیا ہے کہ یہ امام مالک یا نافع یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریح ہے لیکن صحیح تر قول یہ ہے کہ نافع کی تشریح ہے اور اس میں مہر کی قید اتفاقی ہے۔ شغار میں اصل نکاح کا مشروط کرنا ہے کہ دوسرا بھی اپنی زیر ولایت لڑکی کا نکاح اس سے کردے اور یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح حدیث کے ساتھ ثابت ہے۔ عبد الرحمٰن بن ہرمز الاعرج  رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ:

"عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن هُرْمُزَ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنْكَحَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ ابْنَتَهُ وَأَنْكَحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنَتَهُ ، وَقَدْ كَانَا جَعَلا صَدَاقًا ، فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ خَلِيفَةٌ إِلَى مَرْوَانَ يَأْمُرُهُ بِالتَّفْرِيقِ بَيْنَهُمَا ، وَقَالَ فِي كِتَابِهِ : هَذَا الشِّغَارُ الَّذِي نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

(ابو داؤد ، کتاب النکاح باب فی الشغار (2075) مسند احمد 4/94) ابن حبان (1268)

" عباس بن عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمٰن  بن الحکم کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور عبد الرحمٰن بن الحکم نے عباس کو اپنی بیٹی نکاح میں دے دی اور ان دونوں نے مہر بھی مقرر کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے( امیر مدینہ مروان کو خط لکھ کر حکم دیا کہ دونوں نکاحوں میں جدائی کر دی جائے اور اپنے خط میں لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا تھا۔امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"یہ معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی موجود گی میں اس نکاح شغار کو فسخ کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کوئی بھی ان کی مخالفت کرنے والا نہیں اگرچہ اس میں دونوں نے مہر کا ذکر بھی کیا ہواور فرماتے ہیں یہ وہ نکاح ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے روکا ہے۔ اس سے تمام اشکال اٹھ جاتے ہیں۔" (المحلیٰ 9/122)

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے شغار قراردیا تھا معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس کے مطابق ان دونوں نکاحوں میں تفریق کروادیتے ہیں۔اگر چہ انھوں نے مہر کا ذکر کیا تھا لہٰذا معلوم ہوا کہ نکاح شغار میں اصل چیز شرط ہے اور مہر ایک اتفاقی قید ہے یہ لگائی جائے یا نہ لگائی جائے نفس مسئلہ پر اثر انداز نہیں ہو گی اور اس شرط کی بنیاد پر یہ نکاح حرام ہے۔ ایسے مشروط نکاح میں تفریق کروا دینی چاہیے ۔

ہاں اگر کسی آدمی نے اپنی زیر ولایت لڑکی کا نکاح کسی دوسرے آدمی سے کر دیا اور کوئی رشتہ کی شرط نہیں لگائی۔ پھر بعد میں دوسرے آدمی کا پروگرام بن جائے کہ وہ پہلے آدمی کو رشتہ دے دے تو اسے شغار (وٹہ سٹہ) نہیں کہا جاتا اور نہ ہی اس کی ممانعت حدیث میں کہیں وارد ہوئی ہے(مجلۃ الدعوۃ اگست 1998ء)

عورت چاہے کنواری ہو، مطلقہ ہو یا بیوہ ولی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح باطل ہے

شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بد کاری فحاشی،عریانی اور بے حیائی (Vulgarity)سے محفوظ رکھنے کے لیے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے۔شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لیے مختلف ہتھکنڈےاستعمال کرتا ہے موجودہ معاشرے میں بھی اُمت مسلمہ میں بد کاری و فحاشی کو عروج دینے کے لیے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین اور آزادی نسواں کے نام پر کئی انجمنیں، ادارے اور سو سائٹیز(Human Rights Commission,s)بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یورپ کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہمارے رسول مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں اس اباحیت سے بچانے کے لیے اور آنکھ اور شر مگاہ کی حفاظت کے لیے مسلم مردو زن کے لیے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم إِن يَكونوا فُقَراءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٣٢﴾... سورة النور

"تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا اللہ بڑی و سعت والا اور علم والا ہے۔"

آگے فرمایا:

﴿وَليَستَعفِفِ الَّذينَ لا يَجِدونَ نِكاحًا حَتّىٰ يُغنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ... ﴿٣٣﴾... سورة النساء

"اور نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا امر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جنہیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِيعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وَجَاءٌ" (بخاری و مسلم)

"اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو شخص اسباب نکاح کی طاقت رکھتا ہو۔ وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شر مگاہ کو محفوظ رکھتا ہے۔

اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔"

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"انِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي ، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي "

(ابن ماجہ (1846)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں۔"

اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قراردیا گیا ہے اور کہیں مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚکہہ کر بد کاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے لہٰذا بد کاری اور زنا کاری سے بچنے کے لیے ہمیں نکاح جیسے اہل کام کو سر انجام دینا چاہیے اور اس کے لیے طریقہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ان میں سے ایک یہ ہےکہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اگر لڑکی اپنی مرضی سے گھر سے فراراختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہےعورت کے لیے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب و سنت سے دلائل درج ذیل ہیں۔

1۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا وَلَعَبدٌ مُؤمِنٌ خَيرٌ مِن مُشرِكٍ وَلَو أَعجَبَكُم...﴿٢٢١﴾... سورةالبقرة

"اور مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور البتہ غلام مؤمن مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ اچھالگے۔"

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔

"وفي هذه الآية دليل بالنصّ على أنه لا نكاح إلا بولي".

(تفسیر قرطبی3/49)

"یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ۔"

2۔دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

"اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔"

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی سے کیا تو اس نے اسے طلاق دے دی یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہو گئی پھر وہ دو بارہ رشتہ کے لیے آیا تو بھائی نے دوبارہ نکاح میں دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل کی"(ملاحظہ ہو بخاری مع فتح الباری 9/89)ترمذی 5/216شرح السنۃ 9/44ابن کثیر 1/302)

حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فتح الباری شرح صحیح بخاری 9/94میں رقم طراز ہیں

" هِيَ أَصَرْحُ آيَةٍ فِي اعْتِبَارِ الْوَلِيِّ ، وَإِلَّا لَمَا كَانَ لِعَضْلِهِ مَعْنًى . ... كَانَ لَهَا تَزْوِيجُ نَفْسِهَا لَمْ يُعَاتِبْ أَخَاهَا عَلَى الِامْتِنَاعِ ، وَلَكَانَ نُزُولُ الْآيَةِ لِبَيَانِ أَنَّهَا تُزَوِّجُ نَفْسَهَا .

"یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔اگر معقل کی بہن کے لیے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔"

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔

"دليل على أنه لا يجوز النكاح بغير ولي لأن أخت معقل كانت ثيبا، ولو كان الأمر إليها دون وليها لزوجت نفسها، ولم تحتج إلى وليها معقل، فالخطاب إذا في قوله تعالى: ((فَلا تَعْضُلُوهُنَّ)) للأولياء"

(3/105فتح الباری 9/94ترمذی 5/217)

"یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لیے کہ معقل بن یسار کی بہن یثبہ(مطلقہ )تھی اگر نکاح کا معاملہ ولی کی بجائے اس کے ہاتھ میں ہو تا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اللہ کافرمان فَلا تَعْضُلُوهُنَّ میں خطاب عورت کے اولیاء کو ہے۔"

اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل 2/211 میں امام ابن قدامہ نے المغنی 7/338اور امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر 1/302میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری 2/488 میں صحیح قراردیا ہے (فتح الباری کتاب النکاح 9/90)

اسی طرح نکاح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿فَانكِحوهُنَّ بِإِذنِ أَهلِهِنَّ...﴿٢٥﴾... سورة النساء
﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم...﴿٣٢﴾... سورةالنور

ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے عورت کے اولیاء کو خطاب کیا ہے کہ وہ نکاح کرنے کے امور کو سر انجام دیں۔اگر نکاح کا معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ عورتوں کو خطاب کرتے مردوں کو خطاب نہ کرتے۔(ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی3/49)

اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

دور جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح البخاری میں اُم امؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے فرماتی ہیں:

"فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ "

"ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔"

پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج نہیں۔ آخرمیں فرمایا:

"فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ" 

"جب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج  ہے ۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی تھی اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو منہدم کردیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر ہو جائے۔ وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل "

(ابو داؤد مع عون 6/97۔99ترمذی مع تحفہ 4/227،228،ابن ماجہ 1/580مسند احمد 6/48۔145حمیدی 1/112،113،حوذی 3/7حاکم 2/129بیہقی 7/105)

"جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے۔"

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

"لاَ نِكاحَ إِلاّ بِوَلِي."

"ولی کے بغیر نکاح نہیں۔"

(مسنداحمد4/394،413،418،6/260دارمی2/137۔حاکم2/129، ابو داؤد (2085) ترمذی( 1101،1102) طبرانی کبیر 8/351،دار قطنی3/219طحاوی 3/6،7،9)

امام حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کے دلائل صحیح قرار دینے کے بعد فرمایا کہ اس سلسلہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابی ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، مقداد بن اسود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سےروایات مروی ہیں اور اکثر صحیح ہیں اسی طرح ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بھی صحیح روایات موجود ہیں مستدرک حاکم 2/172)

امام حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ حدیث لا نکاح الا بولی کو سترہ (17) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بیان کرتے ہیں مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب "البوارد النوادر ،ص1360" میں امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جس روایت کو دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بیان کرتے ہیں وہ مختار مذہب کی رو سے متواتر شمار ہوتی ہے ملاحظہ ہو تدریب الرزوی ص2/117لہٰذا یہ حدیث تواتر کا حکم رکھتی ہے قرآن مجید کی آیات بینات اور احادیث صحیحہ متواترہ کی روسے روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کےبغیر منعقد نہیں ہوتا۔جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اس کا نکاح باطل ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"وَالْعَمَل عَلَى حَدِيث النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب لَا نِكَاح إِلَّا بِوَلِيٍّ عِنْد أَهْل الْعِلْم مِنْ أَصْحَاب النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَر بْن الْخَطَّاب وَعَلِيّ بْن أَبِي طَالِب وَعَبْد اللَّه بْن عَبَّاس وَأَبُو هُرَيْرَة وَغَيْرهمْ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ فُقَهَاء التَّابِعِينَ أَنَّهُمْ قَالُوا لَا نِكَاح إِلَّا بِوَلِيٍّ مِنْهُمْ سَعِيد بْن الْمُسَيِّب وَالْحَسَن الْبَصْرِيّ وَشُرَيْح وَإِبْرَاهِيم النَّخَعِيُّ .. "(ترمذی 3/4190،411)

"اس مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں پر اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہاء میں سے سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  ،حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ  شریح رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ  اور عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ اور امام ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  ، امام اوزاعی  رحمۃ اللہ علیہ  ، امام عبد اللہ بن مبارک  رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،اور امام اسحاق  بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی یہی موقف ہے۔"

موجودہ دور میں کئی ایک ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ لڑکیاں گھروں سے فرار اختیار کر کے اپنے عاشقوں کے ساتھ عدالت میں جا کر نکاح(Court Marriage) کرا لیتی ہیں اور مسلم معاشرے کے لیے بالعموم اور ان کے والدین کے لیے بالخصوص ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہیں صائمہ جہانگیر کیس کا فیصلہ جو کہ دس مارچ 97ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے کیا وہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ہمارے ملک کے جن دو ججوں نے اس پر ریماکس لکھے وہ یہودیت کی حقوق نسواں کے نام سے پھیلائی ہوئی تحریکوں سے مرعوبیت کا شاخسانہ ہے جیسا کہ ایک جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ" میں اپنی کوشش کے باوجود ایسا اصول نہیں ڈھونڈ سکا۔جس کی بنیاد یہ قراردیا جا سکتا ہو کہ بالغ مسلم لڑکی کا اپنے ولی کی مرضی کے بغیر نکاح ناجائز ہے۔"

مندرجہ بالا صریح دلائل کی روشنی میں مذکورہ جسٹس کا یہ بیان انتہائی غلط اور قرآن وسنت کے دلائل سے لا علمی و ناواقفیت پر مبنی ہے اور انتہائی قابل افسوس ہے، مسلمانوں کا قانون کتاب و سنت ہے جس میں ایسے دلائل اور اصول تواتر کے ساتھ موجود ہیں کہ مسلم لڑکی بالغ ہو یا نا بالغ ، مطلقہ ہو یا کنواری کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر دلائل ذکر کر دئیے گئے ہیں ہمارے ملک میں چونکہ انگریزی قانون (British Law)رائج ہے جس کی بنا پر اکثر فیصلے کیے جاتے ہیں اور قرآن و سنت کو عملاً قانون سمجھا ہی نہیں جا تا اور یہ چیز کسی بھی مسلم کے لیے انتہائی خطر ناک ہے( مجلۃ الدعوۃ مارچ 1997ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 403

محدث فتویٰ

تبصرے