پچھلے دنوں دستک نامی ادارے کی سر براہ عاصمہ جہا نگیر نے ایک جوڑے کا نکاح پڑھایا ہے۔ اس پر مختلف حلقوں میں بڑی لے دے ہوئی اور کہا گیا کہ نکاح منعقد کرنے میں مرد عورت کی کوئی قید نہیں ۔قرآنی آیات و احادیث پڑھنا بھی سنت ہے لیکن یہ بھی نکاح کے لیے کوئی شرط اور ضروری نہیں صرف ایجاب و قبول اور گواہ ضروری ہیں۔اس معاملے کی قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں(ابو عبد اللہ،لاہور)
شریعت اسلامیہ میں فحاشی و عریانی کی روک تھام کے لیے بہت سے قواعد واصول موجود ہیں جن پر چل کر انسان اپنے آپ کو برائی و بد کاری سے بچا سکتا ہے ان قوانین میں سے ایک نکاح کا معاملہ بھی ہے۔ جو انسان کی نگاہ کی حفاظت اور شر مگاہ کا تحفظ کرتا ہے۔ نکاح کے ضروری مسائل سے آگاہ ہونے کے لیےکتاب و سنت میں بہت سے دلائل موجود ہیں لیکن امت مسلمہ کو راہ راست سے ہٹانے اور انہیں بد کاری و فحاشی کے سیلاب میں بہلانے کے لیے مختلف یہودی ادارے اور تنظیمیں اپنے حواریوں سمیت عروج پر ہیں ۔ جنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ایک ادارے اور سوسائٹیز قائم کر کے مسلم ممالک میں بے حیائی کو عام کر دیا ہے انہیں یہودی تنظیموں کے تو سط سے ملک پاکستان میں عاصمہ جہانگیر نامی عورت نے "دستک "کے نام پر فحاشی و عریانی کا اڈا قائم کر رکھا ہے جہاں پر بہت سے گھروں کی لڑکیاں جو اپنے آشناؤں کے ساتھ فرار ہو کر آتی ہیں پناہ پکڑتی ہیں۔ اور عاصمہ جہانگیر باقاعدہ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہےاور اسلامی شعائر کا مذاق واستہزاء کرتی ہے عاصمہ جہانگیر کا خود نکاح قائم کرنے کا شاخسانہ بھی اسی استہزاء کی ایک کڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے قواعد و ضوابط جو بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایجاب و قبول ، دوعادل گواہ اور ولی کی موجود گی کو ضروری قراردیا گیا ہے جس نکاح کا ذکر سوال میں کیا گیا اخبارات یا عوام الناس کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عورت کا ولی بھی موجود نہیں۔ حالانکہ نکاح کے قیام کے لیے عورت کے ولی کا ہونا از حد ضروری ہے۔ جس کے بارے میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ:
(ابو داؤد مع عون6/101،102،ترمذی 4/226،ابن ماجہ 1/580۔ابن حبان (1243)وغیرھا)
"ولی کے بغیر نکاح نہیں۔"
نکاح کے لیے ولی کا ضروری ہونا کئی ایک ادلہ سے معلوم ہوتا ہے تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں"جلد اول کا صفحہ 325تا 336ملاحظہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنا نکاح خود کر لے یا کسی دوسری عورت کا نکاح کرے۔
(السنن الکبری للبیہقی 7/110،دارقطنی 3/227، سنن ابن ماجہ (1882)
"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورت عورت کی شادی نہ کرے اور نہ ہی عورت اپنی شادی خود کرے۔جو عورت اپنی شادی خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔"
علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
" فيه دليل على أن المرأة ليس لها ولاية في الإنكاح لنفسها ولا لغيرها ، فلا عبارة لها في النكاح إيجاباً ولا قبولاً ، فلا تزوج نفسها بإذن الولي ولا غيره ، ولا تزوج غيرها بولاية ولا بوكالة ، ولا تقبل النكاح بولاية ولا وكالة . وهو قول الجمهور "" (سبل السلام 3/1321) طبع مکتبہ نزارریاض )
" اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو اپنا یا کسی دوسری عورت کا نکاح کرانے کا اختیار نہیں ہے لہٰذا نکاح کے سلسلے میں ایجاب و قبول کے بارے میں عورت معتبر نہیں ہے ولی وغیرہ کی اجازت کے ساتھ اپنی شادی خود نہ کرے اور ہی کسی دوسری عورت کی شادی ولایت و وکالت کے ساتھ کرے اور عورت کی ولایت و وکالت کے ساتھ نکاح قبول نہیں کیا جائے گا اور یہی جمہور علماء محدثین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔
علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ عورت ایجاب و قبول کےبارے میں معتبر ہے اور نہ ہی نکاح میں عورت کی ولایت اور وکالت کو قبول کیا گیا ہے نواب صدیق خان رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
"تزويج نكند زن زن را يعني زن را ولايت نمي باشد در انكاح نفس خود وانكاح غير خود پس نيست اور اعبارت درنكاح نه ايجاباً ونه قبولاً"(مسک الختام شرح بلوغ المرام3/342)
عورت عورت کی شادی نہ کرے یعنی عورت کو اپنا یا کسی دوسری عورت کا نکاح کرانے میں ولایت حاصل نہیں ہے لہٰذا نکاح کے سلسلے میں ایجاب و قبول کے متعلق عورت معتبر نہیں ہے۔"
نیز بیہقی میں "لا تُنْكِحُ المَرْأةُ المَرْأةَ "یعنی " عورت عورت کا نکاح" نہ کرے کے الفاظ بھی ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
(اخرجہ عبد الرزاق فتح الباری 9/186تحت باب من قال لا نکاح الابولی)
"سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے بھائی کے بیٹوں میں سے ایک آدمی کے نکاح (کا بندوبست )کیا انھوں نے ان کے درمیان پردہ لگا دیا پھر بات کی۔ یہاں تک کہ جب عقد کے علاوہ کوئی معاملہ باقی نہ رہا تو انھوں نے ایک مرد کو حکم دیا اس نے نکاح کر دیا پھر فرمایا:نکاح کا قائم کرنا عورتوں کاکام نہیں ہے۔"
(نیز ملاحظہ ہو۔ابن ابی شیہ باب من قال لیس للمراۃ ان تزوج المراۃ و انما العقد بید الرجال 3/458(15959)و عبدالرزاق باب النکاح بغیر ولی 6/201،المحلیٰ لا بن حزم وغیرھا)
ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اور عبد لرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے مطبوعہ نسخے میں ہے۔
"فإن النساء لا ينكحن ""عورتیں نکاح نہیں کرا سکتیں ۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے انتظامات وغیرہ میں عورت اپنا کردار پردے کے اندر رہ کر ادا کر سکتی ہےلیکن نکاح پڑھانے کی اسے اجازت نہیں۔ اس لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب عقد نکاح کا معاملہ ہوا تو مرد کے سپرد کر دیا۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاکباز خاتون اُم المومنین یہ کام نہیں کر سکتیں تو عاصمہ جہا نگیر جیسی خبیث النفس عورت کو اس کا اختیار کہاں ہے کہ وہ بدون ولی کود ولایت کا اختیار بھی لے لے اور نکاح بھی پڑھادے۔
اس مسئلہ کی مزید تائید سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس قول سے بھی ہوتی ہے۔
انھوں نے فرمایا:
"لا تشهد المرأة ، يعني الخطبة ولا تنكح "(ابن ابی شیہ 3/458(15963)
"عورت خطبہ نہ دے اور نہ نکاح کرائے۔"
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد الاستاذ امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"ليس العقد بيدها النساء إنما العقد بيد الرجال."(ابن ابی شیہ 3/458،(15958)موسو عۃ ابراہیم النخعی 1/677)
"عقد نکاح عورت کے ہاتھ میں نہیں، عقد نکاح صرف مرد کے ہاتھ میں ہے۔
قرآن مجید میں سورہ البقرۃ کی آیت 237میں بھی اللہ تعالیٰ نے: الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ کہہ کر عقد نکاح مرد کے حق میں ذکر کیا ہے نیز شروع سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا اجماع و تعامل بھی یہی ہے کہ نکاح کرانا مرد کا حق ہے۔مندرجہ بالا احادیث صحیحہ اور آئمہ محدثین کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ عقدنکاح مرد کے اختیار میں ہے اور نکاح کا خطبہ پڑھنا جو کہ مسنون ہے اور ایجاب و قبول کرانا۔ یہ مرد کا حق ہے عورت اس باب میں معتبر نہیں ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب