کیا موجود ہ جہاد کشمیر شرعی ہے؟ بالا دلہ جواب دے کر شفقت فرمائیں ۔(محمد امین، جامعہ اشاعت الاسلام تحصیل عارف والا پاک پتن)
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ذِرْوَةُ سَنَامِ الإِسْلامِ الْجِهَادُ ""جہاد دین کی چوٹی ہے"
(رواہ احمد والترمذی وا بن ماجہ مشکوۃ 1/14)
اسلام کا حق ہے کہ وہ غالب ہو اور باقی ادیان باطلہ مغلوب ہوں۔ غلبہ اسلام کا ذریعہ جہاد ہے۔ جب تک ہوتا رہا۔ اسلام کا غلبہ رہا۔ جب جہاد کو چھوڑا گیا، مسلمان ذلیل و خوار ہو گئے اور کافروں کا غلبہ ہو گیا۔ رسول صادق و مصدق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابو داؤد 3/134باب فی النھی عن العینہ مرفوعاً عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
" جب تم بیع یعنہ (سودی کا روبار) شروع کر دو گے اور بیلوں کی دموں کو پکڑ لو گے اور کھتی باڑی پر خوش ہو جاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ۔"
اور جہاد کا مقصد یہ قراردیا گیا کہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہو اور شرک ختم ہو۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں بھیجا گیا ہوں قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ یہاں تک کہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔اور میرا رزق میرے نیزے کی انی کے نیچے رکھا گیا ہے اور جس نے میرے حکم کی خلاف و رزی کی، اس کے لیے ذلت اور پستی لکھ دی گئی ہے اور جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔"
اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس بات کو سمجھا اور اس پر جہاد کرتے رہے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ کے عامل سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
"پس ہمیں حکم دیا ہے ہمارے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )نے جو ہمارے رب کے رسول ہیں کہ ہم تم سے لڑائی کریں حتیٰ کہ تم اللہ اکیلے کی عبادت کرویا تم جزیہ دو۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(متفق علیہ مشکوۃ1/12)
"مجھےحکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اللہ ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں پس جب وہ یہ کریں گے تو ان کے خون اور ان کے مال مجھ سے بچ جائیں گے مگر جس کا اسلام نے حق دیا ہے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔"
یہ جہاد کا اہم مقصد ہے"لتكون كلمة الله هي العليا" (متفق علیہ مرفوعاً عن ابی موسیٰ الاشعری ریاض الصالحین ص:22)"اللہ کا کلمہ ہی بلند ہو۔"
ہندو ستان کا ہند ودنیا کا بد ترین مشرک ہے یہ بت پرست مشرک مشرکین مکہ سے بھی آگے ہے۔کروڑوں کے معبود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندو سے جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ہے غالباً اس کی وجہ اس کا بد ترین مشرک ہونا ہے جہاد سے اہم مقاصد شرک کو ختم کرنا ہے۔
"اور ان (کافروں)سے لڑو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے اور پورے کا پورا دین اللہ کے لیے ہو جائے۔"
نیز جہاد مظلوموں کی مدد کرنے اور کافروں سے مقبوضہ علاقوں کو چھڑانے کے لیےبھی ضروری ہے۔ کافروں کے حملہ کی صورت میں مدافعانہ قتال ،معاہدہ کر کے توڑ نے والوں کو سزا دینا ، اپنے مقتولین کا بدلہ لینایہ سب اسباب جہاد کو فرض کر دیتے ہیں۔
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ﴾ (بقرہ :216) "تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے۔"
مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں یہ سب صورتیں پائی جاتی ہیں حالات کا تقاضا ہے کہ ہندوؤں سے جہاد کیا جائے ۔ مسلمانوں کے علاقوں پر ان کا قبضہ ہے۔ شرعی لحاظ سے ان کو کافروں کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے جہاد کرنا فرض ہے مقبوضہ کشمیر ، حیدر آباد دکن،جونا گڑھ وغیرہ مسلمان ریاستوں پر ہندوؤں نے جبراً قبضہ کیا ہوا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے۔
"اور ان کو قتل کرو جہاں تم ان کو پاؤ اور ان کو نکالو جہاں جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا۔"
اپنے علاقے واپس لینے کے لیے لڑنے والے طالوت کے ساتھیوں نے کہا تھا :
"اور ہم اللہ کے راستے میں کیوں نہ لڑائی کریں اور تحقیق ہم اپنے ملک اور بچوں سے نکال دیئے گئے۔"
مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کا قتل ،عورتوں کی عصمت دری ، املاک ، کھیتوں ،دکانوں کو جلانا اور ہزاروں افراد ہجرت پر مجبور کر دئیے گئے ۔ یہ حالات بھی جہاد کو فرض کر دیتے ہیں ۔
"اور تم اللہ کے راستے میں لڑائی کیوں نہیں کرتے حالانکہ ضعیف مرد عورتیں اور بچے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی دوست اور مدگاربنا۔"
ہندوؤں نے کشمیر میں استصواب رائے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی جان و مال اور مساجد کی حفاظت کے معاہدے کیے ہیں اور اب تمام معاہدے توڑ دئیے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہندوؤں سے جہاد کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اگروہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمھارے دین طعن کریں تو پس کفر کے اماموں سےلڑو ۔ بے شک ان کا کوئی عہدنہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔"
سات آٹھ لاکھ ہندو فوج مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کشمیر آئی ہے۔ ان سے لڑنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
اور اللہ کے راستے میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔"قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی نصوص سے کشمیر کے موجودہ جہاد کی شرعی حیثیت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان حالات میں کشمیر بلکہ ہندو ستان کے اندر بھی ہندو سے جہاد کرنا فرض ہے۔ شریعت کا تقاضا ہے۔
جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ کی بحث ہمارے نزدیک اتنی اہم نہیں ہے۔کہ اس پر ساری توانائیاں صرف کردی جائیں اور نہ ان میں تعارض ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عملاً قتال میں حصہ لینا ہر فرد کے لیے ممکن نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے جسمانی ، عسکری اور دینی تربیت ضروری ہے اور پھر ہر فرد کا مقبوضہ کشمیر پہنچنا بھی مشکل ہے۔ اس لحاظ سے جہاد کو نماز روزہ کی طرح فرض عین قراردینا صحیح نہ ہو گا لیکن جہاد ایک وسیع عمل ہے۔جہاد کی کی ترغیب ، اس کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا مجاہدین کی ٹریننگ اسلحہ کہ فراہمی ،مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر کی دیکھ بھال کرنا احادیث میں ان کو جہاد قراردیاگیا ہے پھر کم ازکم جہاد کے لیے دلی ارادہ اور عزم بھی جہاد کا حصہ ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم 1مشکوۃ2/331)
"جو مر گیا نہ اس نے جہاد کیا اور نہ اس نے جہاد کا سوچا تو وہ نفاق کے ایک شعبہ پر مرا۔"
حاشیہ مشکوۃ میں وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ کے تحت لکھا ہے کہ"اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ جہاد کو مضبوط کرے۔"
اور اس میں فرض عین کی دلیل ہےويستدل بظاهره لمن قال: الجهاد فرض عين مطلقاً،اور اس کے ظاہر سے وہ شخص استدلال کرتا ہے جو کہتا ہے کہ جہاد مطلقاً فرض) ہے۔(حاشیہ مشکوۃ331) وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ
فرض عین اور فرض کفایہ کے بارے میں ہمارے پیش نظر اور اصولی مباحث ہیں ان کو قصداً ترک کر دیا گیا ہے۔
اس وقت مسلمان حکمرانوں پر کافروں کا تسلط ہے وہ کھل کر نہ جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ اس کی ترغیب اور تائید کر سکتے ہیں۔ اس لیے معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ جہاد میں ہر مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے۔ علماء کرام جہاد کی ترغیب و تحریض اور اس پر شکوک وشبہات کے ازالے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
تجاروغیرہ مالی تعاون فراہم کریں دانشور، صحافی کافروں کے پروپیگنڈہ کا جواب دیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے نام سے بد نام کرتے ہیں زندگی کے تمام طبقات میں جہاد کے لیے بیداری اور تائید ہونی چاہیے ایسا نہ ہو کہ جہاد کی مخالفت اور اس میں شکوک و شبہات سے جہاد کمزور یا ختم ہو جائے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تومسلمان موجودہ ذلت سے بھی بد تر ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گریں گے۔أعازنا الله منها بمنه وكرمه"
عرصہ دراز کے بعد جہاد شروع ہوا ہے تو اس کو آگے بڑھنا چاہیے مسلمان حکمرانوں کو محکومی سے نکالنے کے لیے بھی جہاد کا قوت پکڑنا ضروری ہے۔ اسی راستے سے آزادیاں نصیب ہوں گی اور ایک اللہ کی غلامی کا اعزاز میسر آئے گا ان شاء اللہ ۔ بہر حال اب جہاد کی مخالفت کو ختم ہو جا نا چاہیے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ جہاد کا ہر اول دستہ بنیں ۔ جہاد کی ترغیب ، مجاہدین کی مالی اعانت ، ان کی دینی تر بیت میں بھر پور کردار ادا کریں اور مجاہدین تک پہنچیں اور جہاں شرعی لحاظ سے ان کی کار گردگی یا طریقہ میں سقم ہو۔ اس کی اصلاح کریں۔
جہاد کس طرح ہو نا چاہیے ؟ اس کی حکمت عملی اور طریقہ کار کیا ہونا چاہیے مسجد اور اس کے حجرہ میں بیٹھ کر اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ اس کی اصلاح اور درستی کے لیے مجاہدین کے پاس پہنچنا ہو گا۔اللَّهُمَّ وَفِّقْنِي لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى(آمین)
هذا ما عندي من الجواب والله اعلم بالصواب وعلمه اتم وانا عبده"(فضیلہ الشیخ حافظ احمد اللہ رحمۃ اللہ علیہ مجلہ الدعوۃ مارچ 1999ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب