کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ ا(ایک سائل لاہور)
قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔"
اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکری ہیں جن کی تشریح قرآن پاک کی دوسری آیت کریمہ سے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے (142) (پیدا کیے) آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو "
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انعام کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ " بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔
"انعام سے مراد یہاں اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکری ہے اور" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔"
(تفسیر قرطبی:12/30)
نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں۔
"انعام کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی انعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔"(ترجمان القرآن ص741)
مزید فرماتے ہیں۔
"بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ"سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مفصل بیان فرمایا۔" (ترجمان القرآن ص727)
مذکورہ آیت کی تفسیر میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"وفيه إشارة إلى أن القربان لا يكون إلا من الأنعام دون غيرها"(فتح القدیر 3/452)
"اس میں اشارہ ہے کہ انعام کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی۔"
انعام کی تشریح میں فرماتے ہیں۔
"وهي الإبل والبقر والغنم" (فتح القدیر 3/451)"اور وہ اونٹ گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔"
مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" سے مراد اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے ۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔ علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه((لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ))""قربانی اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔"
یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے فرماتے ہیں بعض نے جو یہ لکھا ہے۔ الجَاموسُ : نَوعٌ من البَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ احناف کے ہاں بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ بقر میں داخل ہے ہدایہ کتاب الاضحیہ 4/359)بیروت میں ہے۔
"ويدخل في البقر الجاموس ; لأنه [ ص: 92 ] من جنسه""گائے میں بھینس داخل ہے اس لیے کہ یہ گائے کی جنس سے ہے۔"
فتاویٰ ثانیہ1/810۔میں لکھا ہے۔ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے(کمافی الہدایہ ) یا عموم "بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے از مولانا ابو العلاء نظر احمد کسوانی ۔آئمہ اسلام کے ہاں جاموس (بھینس ) کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی براحتیاط اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور دیگربحث و مباحثے سے بچنا ہی اولیٰ و بہتر ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب