سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) کیا پاکستانیوں کو قربانی نہیں کرنی چاہیے؟

  • 20855
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1295

سوال

(39) کیا پاکستانیوں کو قربانی نہیں کرنی چاہیے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کہا جا رہا ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم پر قربانی نہیں کیونکہ پوری قوم مقروض ہے۔اس لیے ہم پہلے"قرض اتارو ملک سوارو"سکیم میں بھر پورحصہ لیں۔ جب یہ قرض ادا ہوجائےتو پھر ہم قربانی کریں۔ قرآن و سنت کی روسے اس مسئلہ کو واضح کریں جزاک اللہ خیرا(ابو ہاشم لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کے خلاف یہودی عیسائی اور بے دین قومیں مختلف اوقات میں سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں ۔یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ قربانی جیسی اہم سنت کو ایک سودی قرضے کے ذریعے ختم کرنا جرم عظیم ہے۔ یہ بات درست ہے کہ انسان اپنی ضروریات زندگی کے تحت قرض لے سکتا ہے۔قرآن و سنت میں اس کی کئی ایک واضح نصوص موجود ہیں اور اس قرض کی ادائیگی کا بھی شریعت ہمیں حکم کرتی ہےلیکن سود پر قرض لینا یعنی قرض کے ساتھ زائد رقم کی ادائیگی حرام ہے جیسا کہ کئی ایک اثر میں وارد ہے کہ:

"كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا؛ "(تفسیر احسن البیان ص:121)

"جو قرض نفع لائے وہ سود ہے۔"

زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود کی بنا پر اصل رقم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا حتیٰ کہ تھوڑی سی رقم بھی پہاڑ بن جاتی جس کی ادائیگی انتہائی گراں ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اس نظام کے خاتمے کے لیے کئی ایک آیات نازل کیں جن میں اسے بالکل حرام قراردے دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا:اگر کوئی شخص تنگ دست و ضرورت مند ہے اور وہ قرض لیتا ہے تو اسے آسانی تک مہلت دے دو۔ اگر قرض معاف کر دیا جائے تو اسے بہترقراردیا گیا۔ اس کی فضیلت میں بھی کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ موجود ہیں سودی نظام اور اسلامی نظام میں بہت زیادہ فرق ہے سودی نظام سر اسر ظلم و زیادتی ،سنگ دلی اور خود غرضی پر مبنی ہے۔ کیونکہ سود لینے والا یہ نہیں دیکھتا کہ جسے رقم بطور قرض دی ہے اس کی پوزیشن کیا ہے اس کو اپنے متعین نفع سے غرض ہوتی ہے جبکہ دین اسلام دوستی،ہمدردی ،تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کا نظام ہے۔ مسلمان اس پر رحمت نظام کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے۔

نواز شریف کی"قرض اتاروملک سنوارو"سکیم خالصتاً اسی سودی نظام پر مشتمل ہے کیونکہ اصل رقم جس کی ادائیگی کرنی ہے۔بہت تھوڑی ہے جبکہ اس پر سود در سودکی شکل میں کئی گنا زیادتی ہو چکی ہے۔ لہٰذا نواز شریف صاحب کو بحیثیت مسلم یہ اعلان کرنا چاہیےکہ ہم صرف اصل رقم واپس کریں گے۔ باقی سودی رقم ہم ادا نہیں کریں گے کیونکہ سود کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود خور کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ کرنے والا قراردیا ہے سود کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّبو‌ٰا۟ أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿١٣٠﴾... سورة البقرة

"اے ایمان والو!یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ سےڈرو۔امید ہے کہ فلاح پا جاؤ گے۔"

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کی مذمت کرتے ہوئے اس پر لعنت کی ہے جیسا کہ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: ( لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ ، وَشَاهِدَيْهِ ) ، وَقَالَ: (هُمْ سَوَاءٌ) "

(مسلم (1598)مسند احمد 3/304ابو یعلیٰ 3/377بیہقی 5/275)شرح السنہ 8/54)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے والے کھلانے والے اس کے دونوں گواہوں اور لکھنے والے پر لعنت کی اور فرمایا یہ گناہ میں برابر ہیں۔"سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہےکہ:

"عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: رَأَيْتُ أَبِي اشْتَرَى عَبْدًا حَجَّامًا فَأَمَرَ بِمَحَاجِمِهِ فَكُسِرَتْ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الكَلْبِ وَثَمَنِ الدَّمِ، وَنَهَى عَنِ الوَاشِمَةِ وَالمَوْشُومَةِ، وَآكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ، وَلَعَنَ المُصَوِّرَ."

(بخاری مع فتح الباری3/314(2086)مسند احمد4/308،09مسند طیالسی (1143)طبرانی کبیر 22/20۔بیہقی 2/9)

"میں نے اپنے باپ کو دیکھا انھوں نے ایک غلام خریدا جو حجام تھا۔انھوں نے اس کے حجامت کے ہتھیار توڑ ڈالنے کا حکم دیا تو وہ توڑ دئیے گئے۔میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتے کی قیمت ، خون  کی قیمت ، گودنے والی گداونے والی، سود کھانے اور کھلانے سے منع کیا اور تصویر بنانے والے پر لعنت کی۔"

(اسی طرح یہی حدیث سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سنن ابو داؤد (3333)ترمذی(1206)مسلم(2277)مسنداحمد1/393،394،453،403مسند طیالسی (343)ابن حبان (1112) بیہقی 5/275میں مروی ہے)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبو‌ٰا۟ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبو‌ٰا... ﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة

"جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جیسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہوتا ہے اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔"

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

"اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر واقعی ایمان لائے ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگا ہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو(اور سود چھوڑدو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔"

اس آیت کریمہ میں ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور مصیبت و نافرمانی کے ارتکاب پر وارد نہیں ہوئی۔ اسی لیے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے۔کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور بازنہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر وغیرہ)

لیکن ہمارے ملک کی حالت اس سے بھی ابتر ہے، یہاں ایک فرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے حکمران خود سودی نظام کو برقراررکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور اسی سودی نظام میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ نکلنے کا نام بھی نہیں لیتے۔ حالانکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جو ایک حکمران بھی تھے انھوں نے سود کی حرمت کے ساتھ ہی سارا سودی نظام جو زمانہ جاہلیت سے تھا یکسر ختم کر ڈالا جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایک طویل حدیث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق ہے۔ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اس آخری خطبے میں ارشاد فرمایا:

"وربا الجاهلية موضوع، وإن أول ربا أضع ربانا ربا عباس بن عبد المطلب"

"یقیناً جاہلیت کا تمام سود چھوڑ دیا گیا ہےپہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں۔وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔"

(یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم کتاب الحج (147)مسند احمد (5/73)المنتقی لا بن الجارود (468)مؤطا کتاب البیوع (83) ابن ماجہ 2/1025(3074)ابو داؤدمع عون 2/128)وغیرہ میں مروی ہے)

بلکہ مسند احمد 5/73،(20172) میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ساتھ فرمایا:

"فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ "

"تمھارے لیے اصل سرمایہ ہے نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔"

یعنی اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمھاری طرف سے ظلم ہو گا اور اگر تمھیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہو گا۔

مذکورہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی نے سود پر لین دین کیا ہو تو اسے سود کی حرمت معلوم ہونے پر سارا معاملہ ختم کر دینا چاہیے صرف اپنا اصل سر مایہ لینا چاہیے۔

لہٰذا ہماری حکومت کو جہاد کا علم تھا متے ہوئے ان یہودی بینکوں کو صرف اصل رقم جو قرض لی ہے ۔اسے واپس کرنا چاہیے نہ کہ اس پر سود در سود کیونکہ کسی مسلم حکمران کو ایسے سودی نظام کی حمایت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اسے ختم کرنے کے لیے جہاد کرنا چاہیے پوری قوم کو جو اسی سودی نظام میں جکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ انتہائی افسوناک ہے اور قوم کا بھی اتنی خطیر رقم سود اتارنے کے لیے جمع کروانا سود پر تعاون ہے جو شرعاً حرام ہے ارشاد باری ہے:

﴿ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورةالمائدة

"نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو۔ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

معلوم ہوا کہ اس سودی کام میں تعاون کرنا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں یہودی بینکوں سے قرض جن سرمایہ داروں اور وڈیروں نے کیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ ان خاندانوں کو پکڑے اور ان سے اصل رقم وصول کرے۔ غریب عوام کو اس کام میں ملوث کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

لہٰذا پوری قوم کو خواہ مخواہ مقروض قرار دے کر قربانی جیسی سنت جلیلہ سے محروم کرنا بھی دین اسلام کےخلاف سازش اور یہودیت کی حامیت ہے ہر مسلم کو جو قربانی کرنا چاہتا ہے اس سازش سے بچنا چاہیے اور سنت ابراہیمی کو ترک نہیں کرنا چاہیے ۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 323

محدث فتویٰ

تبصرے