سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) قربانی کی کھالوں کا مصرف

  • 20854
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 879

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قربانی کی کھالیں مجاہدین کو دینا قرآن و سنت کی روسے درست ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کھالیں مدارس کا حق ہیں تو جہاد کے نام پر ان کا حق تلف کیا جا تا ہے۔ قرآن و حدیث کی روسے وضاحت کریں۔(ایک سائل لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے متعلق ایک مقام پرارشاد فرمایا:

﴿وَالبُدنَ جَعَلنـٰها لَكُم مِن شَعـٰئِرِ اللَّهِ لَكُم فيها خَيرٌ فَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيها صَوافَّ فَإِذا وَجَبَت جُنوبُها فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ كَذ‌ٰلِكَ سَخَّرنـٰها لَكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٣٦﴾... سورةالحج

"اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے مقرر کئے ہیں ۔ تمھارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ تم ان پر اللہ کا نام لو۔ ایک پاؤں سے بندھے اور تین پاؤں سے کھڑے ہوں پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور انہیں بھی دو جو مانگتے نہیں اور جو مانگتے ہیں۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کا ذکر کیا ہے جو حج و عمرہ کے موقعہ پر حرم میں کی جاتی ہے اور دوسری قربانی دہ ہے جو عید الاضحیٰ کے موقعہ پر تمام مسلمان اپنے گھروں میں کرتے ہیں اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ملاحظہ ہو:

"عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ» فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: «كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا"

(بخاری کتاب الاضاحی باب مایؤکل من تعلیق لحوم الاضاحی وما یتزودمنہا(5569)

"سلمہ بن اکوع  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس نے تم میں سے قربانی کی ہے۔ وہ تیسرے دن کے بعد اس حال میں صبح  نہ کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت سے کوئی چیز باقی ہو۔ آئندہ سال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا اے اللہ کے رسول  جس طرح ہم نے پچھلے سال کیا تھا کیا اسی طرح ہی کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : تم کھلاؤاور ذخیرہ کرو۔ اس سال لوگوں کو مشقت تھی تو میں نے ارادہ کیا کہ تم اس میں ان کی مدد کرو۔"

یہی حدیث اسی باب میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ سے بھی مروی ہے علاوہ ازیں مسند احمد3/23،نسائی کتاب الاضاحی 7/234،بخاری کتاب المغازی (3997)مسند ابی یعلیٰ 2/28وغیرہ میں بھی موجود ہے۔

مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت آدمی خود بھی کھاسکتا ہے اور عزیز واقارب اور فقراء و مساکین کو بھی دے سکتا ہے اور جو مصرف قربانی کے گوشت کا ہے،وہی مصرف قربانی کی کھال کا ہے یعنی قربانی کی کھال خود بھی استعمال کر سکتا ہے۔عزیز واقارب کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتا ہے اس کی دلیل صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ مع شرح نووی13/130،131،میں ہے۔

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں قربانی کے موقع پر بادیہ والوں کے کچھ گھر مدینہ آکر آباد ہوگئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تین دن کے لیے قربانی کا گوشت رکھ کر باقی صدقہ کردو۔ پھر اس کے بعد والے سال میں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور چربی پگھلاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابات کیا ہے؟تو انھوں نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں نے تمھیں صرف ان لوگوں کی خاطر منع کیا تھا جو باہر سے آکر یہاں رہنے لگے تھے اب کھاؤ اور ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔"

اس صحیح حدیث سے واضح ہو گیا کہ جس طرح آدمی قربانی کا گوشت خود کھا سکتا ہے اسی طرح کھال بھی استعمال کر سکتا ہے عزیز و اقارب ،دوست واحباب کو دے سکتا ہے اور کھال کو صدقہ بھی کر سکتا ہے اور قرآن حکیم میں مصارف صدقات میں "فی سبیل اللہ"کی اصطلاح صحیح  تفاسیر کی روشنی میں جہاد فی سبیل اللہ ہے لہذا کھال مجاہدین کو دینا بالکل جائز اور درست ٹھہرا ۔

البتہ کھال یا گوشت بیچ کر خود اس کی رقم نہیں کھا سکتا اور اگر کھال صدقہ کر دے اور گوشت کا زیادہ حصہ بھی بانٹ دے تو یہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج کے موقع پر ایسے ہی کیا تھا۔

صحیح بخاری میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہےکہ:

"أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا "

(صحیح البخاری باب یتصدق بجلودالہدی1/232مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)(کراچی)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں حکم دیا کہ وہ آپ کی قربانیوں کی نگرانی کریں اور تمام قربانیوں کے گوشت، چمڑے اور ان کے جل تقسیم کردیں۔

اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں :

یعنی "آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت چمڑے اور جل صدقہ کردوں۔"

جو لوگ کہتے ہیں کہ کھالیں صرف فقراء اور مساکین کا حق ہے انہیں چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا احادیث کے مقابلے میں ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہو کہ کھالیں صرف فقراء اور مساکین کا حق ہیں اور کسی کا نہیں اور وہ ایسی حدیث کبھی پیش نہیں کر سکتے اور اگر یہ مان لینا جائے۔ کہ قربانی کی کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے تب بھی اس  کے حقدار زیادہ مجاہدین ہی ٹھہریں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے لیے وقف کر رکھی ہیں اور جہادی مصروفیات کی بنا پر کاروبار زندگی سے محروم ہیں ۔اور بہت سے مجاہدین ایسے ہیں کہ انہیں صرف جہاد کی بنیاد پر گھر سے نکال دیا گیا ہے اس لحاظ سے یہ نہ صرف مجاہدین ہیں بلکہ مسکین بھی ہیں انہیں اپنی غذا ،اسلحے اور کپڑے وغیرہ کی ضروریات ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ دوسرے حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صدقات کا مصرف یوں بیان فرمایا ہے۔

﴿لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمـٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا...﴿٢٧٣﴾... سورة البقرة

"صدقات ان فقراء کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد )میں روکے ہوئے ہیں زمین میں(کاروبار وغیرہ کے لیے)سفر نہیں کر سکتے ۔سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انہیں غنی گمان کرتا ہے تو انہیں ان کی علامات سے پہچانےگا۔ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے ۔"

دراصل ہمارے ان بھائیوں کو مجاہدین کے حالات کا صحیح علم نہیں کہ یہ نوجوان معاشی طور پر کتنے مشکل ترین حالات سے دوچار ہیں اور معسکرات میں جا کر اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتنے ہی ایسے بہن بھائی ہیں جن کے پاس دورہ خاصہ کی اہم ترین ٹریننگ مکمل کرنے کے لیے سازو سامان نہیں ہوتا ۔ مراکز ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی ایسے مشکل حالات آجاتے ہیں جن کی بنا پر ان بھائیوں کو بعض اوقات عام چپل اور پھٹے پرانے لباس میں ہی دورہ مکمل کرنا پڑتا ہے۔ ہاں ناواقف لوگ ان کے چہرے کی چمک و دمک دیکھ کر سمجھتے ہیں ان کے پاس بڑی دولت ہے۔اگر ان مجاہدین پر قربانی کی کھالیں صرف کی جائیں تو یہ ضائع نہیں ہوں گی بلکہ بالکل آپ کی قربانی کی کھالیں صحیح محل پر پہنچیں گی۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ہم مدارس کے قطعاً خلاف نہیں ہیں بلکہ تمام اہلحدیث مدارس ہمارے اپنے مدرسے ہیں اور یہ مجاہدین انہی مدارس سے اٹھنے والے ہیں ہمارے نزدیک دونوں جگہوں پر کھالیں صرف کرنی چاہئیں۔ایک دوسرے کی مخالفت سے باز رہنا چاہیے اور اگر حقیقتاً غورکریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مجاہدین تو مدارس کے محافظ ہیں۔ تعلیم بھی ضروری ہے اور جہاد بھی لازمی ہے۔ ایک فریضے کو ماننے اور دوسرے کا انکارکرنا درست نہیں بلکہ یہ بعض اسلام کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا ہے۔اللہ سمجھنے کی توفیق بخشے ۔(مجلۃ الدعوۃاپریل 1998ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 319

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ