ایصال ثواب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (ڈاکٹر ظہیر قریشی سرگودھا )
دور حاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات و رسومات نے جنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہو جانے کے بعد ایصال ثواب کا بھی مسئلہ ہے یہ بھی بہت غلط رنگ اختیار کر چکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کو ثواب پہنچانے کا رواج عام ہے۔ حکمران ،وزراء ،سلاطین اور ملکوں کے سربراہ یا کسی عہدے پر فائز آدمی جب اس دار فانی سے کوچ کرتا ہے تو قرآن خوانی اور گٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشاجاتا ہے حتیٰ کہ اب قرآن خوانی تو ایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ دینی مدارس اور یتیم خانوں کے حفاظ و قرآء کی روزی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے یاد رہے کہ انسان کو مرنے کے بعد جن اشیاء کا فائدہ ہوتا ہے وہ صرف وہی ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں کیا گیا ہے ۔عبادات میں وہی طریقہ معتبر سمجھا جائے گا۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو گا جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور دیگر آئمہ محدثین رحمۃ اللہ علیہ چلے ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
(بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح (5063)
"جس شخص نے میرے طریقے سے بے رغبتی اختیارکی، وہ مجھ سے نہیں۔"
لہٰذا ہمیں تمام عبادات و معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ میت کو جن اعمال کا فائدہ مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ ان کی توضیح درج ذیل ہے۔
دعا کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر مرنے والا کا فر و مشرک نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ اللہ وحدہ لا شریک نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
"اور جو لوگ ان (اہل ایمان )کے بعد آئے وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگارہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ نہ بنااےہمارے پروردگاربلا شبہ تو مشفق مہربان ہے۔
اسی طرح حدیث میں آتا ہے جب نجاشی فوت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی تو فرمایا:
(بخاری کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنائز بالمصلی والمسجد (1327)نسائی (2041)
"اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو۔"
"عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع کی طرف نکلا کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے ان کے لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔"
اسی طرح مسند احمد 6/92،221،مؤطا کتاب الجنائزباب جامع الجنائز 1/208۔نسائی کتاب الجنائز باب الامر بالا ستغفار للمؤمنین (2036۔2037)مسلم کتاب الجنائز باب مایقول عنددخول القبور والدعاء لا ھلھا(103۔974)عبدالرزاق 3/570۔576)وغیرہ میں مفصل طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبرستان میں جا کر ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا کرنا منقول ہے۔
علاوہ ازیں قبرستان میں جا کر زیارت قبور کی احادیث اور نماز جنازہ میں دعائیں وغیرہ اس بات کی بین دلیل ہیں کہ مسلمانوں کی دعائیں مسلمان میت کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ان دعاؤں کی تفصیل کے لیے راقم الحروف کی"باغیچہ جنت" ور حصن المجاہد" کا مطالعہ کریں۔
کافر اور مشرک میت کے لیے دعا کی اجازت نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔"
اس آیت کے شان نزول میں صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۃتوبہ(4675)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور تفسیر ابن کثیرص: 633ط۔دارالسلام ،تفسیر ابن ابی حاتم 6/1893(10051)مستدرک حاکم 2/336۔وغیرہ میں آپ کی والدہ کا ذکر ہے البتہ جو آدمی غیر اسلام پر مرجائے تو عبرت کے لیے اس کی قبر کی زیارت کی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم کتاب الجنائز باب استذان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربہ عزوجل فی زیارۃقبرامہ (106،105،976)ابو داؤد کتاب الجنائز باب فی زیارۃ القبور (3234) نسائی باب زیارۃ قبر المشرک (2033) ابن ماجہ باب ماجاء فی زیارۃ قبور المشرکین (1572)طحاوی 3/189،ابن حبان (3159)مستدرک حاکم 1/357،376،بیہقی 4/76،مسند احمد2/441،ابن ابی شیہ 4/139،میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ کے استغفار کی اجازت نہیں ملی البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبر کر کے فرمایا:
"قبروں کی زیارت کرو۔یہ موت یاد دلاتی ہیں۔"
مندرجہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان میت کے لیے بخشش کی دعا کی جا سکتی ہے ،کافر و مشرک کے لیے دعا کی اجازت نہیں ۔
یعنی مسلمان اپنی زندگی میں ایسا کام کر جائے جس کا ثواب و فائدہ اسے مرنے کے بعد بھی برابر ملتا رہے اور اس کے جاری کردہ کام سے بعد میں لوگ بھی فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"بلا شبہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑجاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔"
اس آیت کریمہ میں قَدَّمُوا سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہےآثَارَهُمْسے مراد وہ اعمال ہیں جن کے عملی نمونے وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی اقتداء میں بجالاتےہیں۔ایسے صدقات واعمال کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم کتاب الوصیہ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ (1014۔1631)الادب المفرد باب برالوالدین بعد موتہما(38) مسند ابی یعلیٰ 11/343(6457)مسند احمد 2/372،ترمذی کتاب الاحکام باب فی الوقف(1381)ابو داؤد کتاب الوصایا باب ماجاء فی الصدقہ عن المیت(2880)نسائی کتاب الوصایا باب فضل الصدقہ علی المیت 6/251۔(3653)مشکل الاثار 1/95بیہقی 2/278)
"جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد ہوتا رہتا ہے)(1)صدقہ جاریہ (2)علم جس سے نفع حاصل کیا جا تا ہے یا(3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"قَالَ الْعُلَمَاء : مَعْنَى الْحَدِيث أَنَّ عَمَل الْمَيِّت يَنْقَطِع بِمَوْتِهِ , وَيَنْقَطِع تَجَدُّد الْثوَاب لَهُ, إِلا فِي هَذِهِ الأَشْيَاء الثَّلاثَة ; لِكَوْنِهِ كَانَ سَبَبهَا; فَإِنَّ الْوَلَد مِنْ كَسْبه , وَكَذَلِكَ الْعِلْم الَّذِي خَلَّفَهُ مِنْ تَعْلِيم أَوْ تَصْنِيف , وَكَذَلِكَ الصَّدَقَة الْجَارِيَة , وَهِيَ الْوَقْف " انتهى.(شرح مسلم للنووی :11/72)"علماء نے کہا ہے حدیث کا معنی یہ ہے کہ میت کا عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا نیا ہونا بھی منقطع ہو جاتا ہے مگر ان تین اشیاء میں اس لیے کہ میت ان امور کی سبب تھی۔ اولاد اس کی کمائی ہے۔ اسی طرح علم جو اس نے پیچھے چھوڑا خواہ وہ کسی کو تعلیم دے کر گیا یا کوئی عملی تصنیف چھوڑ گیا۔ اسی طرح صدقہ جاریہ بھی اس کا سب ہے اور یہ وقف ہے۔"
ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابن ماجہ کتاب المقدمہ(241)مواردالظمان باب فیمن علم علما(84،85،)ط اخری1/182،طبرانی صغیر 1/141طبرانی اوسط 4/281(3496)جامع بیان العلم لا بن عبدالبر1/15۔الترغیب 1/100اسنادہ صحیح )
"آدمی اپنے بعد سب سے بہترین تین چیزیں چھوڑ کر جاتا ہے۔(1)نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے (2)صدقہ جاریہ اس کا اجر اسے (مرنے کے بعد )پہنچتا ہے(3)اور علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔"
(ابن ماجہ المقدمہ باب ثواب مغلم الناس الخیر(242)ابن خزیمہ (2490)شعب الایمان بیہقی (3448)صحیح الجامع الصغیر للا لبانی حفظہ اللہ (2231) علامہ البانی حفظہ اللہ اور علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو حسن قراردیا ہے۔ مرعاۃ المفاتیح 1/346)
بلا شبہ مومن آدمی کو اس کے عمل اور نیکیوں سے اس کی موت کے بعد جو ملتا ہے اس میں سے(1)ایسا علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اسے نشر کیا(2)اور نیک اولاد جو اس نے چھوڑی (3) اور مصحف (قرآن) جو اس نے ورثاء کے لیے چھوڑا(4) یا جو اس نے مسجد تعمیر کی (5) یا مسافر خانہ تعمیر کیا(6)یا نہر جاری کی(7)یا اپنی زندگی اور تندرستی میں اپنے مال سے صدقہ نکالا اسے مرنے کے بعد ان کا اجرملتا رہے گا۔"
(مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل (163۔11913)مسند ابی عوانہ 5/93۔94۔نسائی کتاب الجہاد باب فضل الرباط6/39۔مشکل الاثار 3/102۔ابن حبان (4604۔4607)طبرانی کبیر 6/327(6178)مستدرک حاکم 2/80حلیۃ الاولیاء5/190۔بیہقی کتاب الجہاد لا بن ابی عاصم2/700(309)
"سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا:اللہ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحدوں کا پہرہ دینا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر وہ مرگیا اس کا وہ عمل اس پر جاری رہے گا جو وہ کرتا رہا۔اور اس پر اس کا رزق و بدلہ جاری کر دیا جائے گا اور وہ فتنے سے محفوظ ہو گا۔"
(ابو داؤد،کتاب الجہاد باب فی فضل الرباط (2500)ترمذی کتاب فضائل الجہاد (1621)کتاب الجہاد لا بن المبارک (174)ابن حبان (4605)طبرانی کبیر 18/311(802)مستدرک حاکم 2/144) سنن سعید بن منصور (2414)ابو عوانہ 5/91۔الاربعین لابن عساکرص:86،85)
"فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر میت کا خاتمہ اس کے عمل پر ہوجاتا ہے مگر اللہ کی راہ میں پہرہ دینےوالا اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنوں سے بچا لیا جاتا ہے۔"
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ان تمام اعمال صالحہ کا ثواب و فائدہ پہنچتا ہے جن کو وہ اپنی زندگی میں سر انجام دے گیا اور وہ صدقہ جاریہ کے طور پر باقی رہے جن میں علم سکھانا، نیک بچے کی دعا۔قرآن مجید چھوڑ جانا،مسجد بنوانا،مسافرخانہ تعمیر کروانا۔نہر وکنواں جاری کر جانا ، کوئی صدقہ جو اس نے صحت و حیات میں کیاہو۔جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے فوت ہو جانا۔مردہ سنت جاری کرنا، درخت وغیرہ لگاجانا وغیرھا۔یہ تمام امور اس کے اپنے اعمال صالحہ ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ ولدصالح بھی آدمی کی نیک کمائی میں داخل ہے۔جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(نسائی کتاب البیوع باب الحث علی الکسب (4461)ابو داؤدکتاب الاجارۃ باب الرجل یاکل من مال ولدہ(3528۔3529)ترمذی کتاب الاحکام (1358)ابن ماجہ کتاب التجارات باب ماللرجال من مال ولدہ (2290) مستدرک حاکم 2/46۔مسند احمد 6/41۔126،173،193،201،220)
"بلاشبہ آدمی جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے، وہ سب سے پاکیزہ ہے۔اور بلاشبہ آدمی کی اولاد اس کی کمائی سے ہے۔"
اور ابو داؤد کتاب الاجارۃ (3530) ابن ماجہ کتاب التجارات (2292) اور مسند احمد 2/179۔204۔214،میں بسند حسن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح بھی مروی ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک تمھاری اولاد تمھاری سب سے پاکیزہ کمائی میں سے ہے۔ سو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔"
معلوم ہوا کہ اولاد آدمی کی اپنی کمائی ہے لہٰذا اولاد جو نیک عمل کرے گی والدین کو اس میں سے اجر ملے گا۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
1۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الصوم باب من مات وعلیہ صوم (1952)مسلم کتاب الصیام باب قضاء الصیام عن المیت (153۔1147)ابو داؤد کتاب الصیام باب فیمن مات وعلیہ صیام (2400) بیہقی 6/279)مسند احمد 6/69)
"جو آدمی مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزہ رکھے۔"
2۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ:
(مسلم کتاب الصیام باب قضاء الصیام عن المیت (156۔1148۔156)بخاری
کتاب الصوم باب من مات و علیہ صوم (1953)
"ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔اس نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمے نذر کے روزے ہیں۔کیامیں اس کی طرف سے روزے رکھوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بتاؤ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو تو اسے ادا کرتی۔کیا وہ قرض اس کی طرف سے ادا کیا جائے گا؟اس نے کہاہاں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اپنی ماں کی جانب سے روزے رکھ۔"
3۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(ابو داؤد کتاب الایمان والنذور باب فی قضاء النذرعن المیت (3308)طحاوی
3/140بیہقی 4/255،256،10/85،مسند طیالسی (2630)
"ایک عورت سمندر میں سوار ہوئی تو اس نے نذر مانی اگر اللہ تعالیٰ اسے نجات دے گا تو وہ ایک ماہ کے روزے رکھے گی۔سو اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی۔اس نے روزے نہ رکھے یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئی۔اس کی بیٹی یا بہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھے۔"
4۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(بخاری کتاب الوصایا(2761)مسلم کتاب النذرباب الامر بقضاء النذر 1/1638ابوداؤد کتاب الایمان والنذورباب فی قضاء النذرعن المیت (3307)ترمذی کتاب النذوروالا یمان باب ماجاء فی قضا ء النذورعن المیت(1546)نسائی کتاب الوصایا(3662،3664)ابن ماجہ کتاب الکفارات(2132)
"سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ان کے ذمہ نذر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی طرف سے نذر کو پورا کر۔"
مندرجہ بالا احادیث صراحت سے،اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا ولی نذر کا روزہ رکھ سکتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے ولی فرض روزہ بھی رکھ سکتا ہے لیکن راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث اپنے اطلاق پر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بھی کا روزہ ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں نذر کے روزے کی توضیح ہے اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک قول بھی اس کی وضاحت کرتا ہے جیسا کہ طحاوی 3/142)اور محلی ابن حزم7/4میں ہے ایک تابعیہ عمرۃ فرماتی ہیں۔
" أَنَّ أُمَّهَا مَاتَتْ وَعَلَيْهَا مِنْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ لِعَائِشَةَ : أَقْضِيه عَنْهَا ؟ قَالَتْ : لاَ , بَلْ تَصَدَّقِي عَنْهَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ نِصْفَ صَاعٍ عَلَى كُلِّ مِسْكِينٍ""ان کی والدہ فوت ہو گئیں اور ان کے ذمے رمضان کے روزے تھےتو انھوں نےعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا ۔ کیا میں اپنی طر ف سےماں کی طرف قضا کروں ؟ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:نہیں بلکہ تو اس کی طرف سے ہر دن کے عوض آدھا صاع ہر کسی مسکین پر صدقہ کر۔"
اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(ابو داؤد کتاب الصیام باب فیمن مات و علیہ صیام (2401)المحلیٰ 7/7)
"جب کوئی آدمی رمضان میں مریض ہو جائے پھر مر جائے اور اس نے روزے نہیں رکھے اس کی طرف سے کھانا (فدئیے میں)دیا جائے اس پر قضا نہیں اور اگر اس پر نذر ہو تو اس کی طرف سے ولی قضا کرے۔"
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(السنن الکبری للنسائی کتاب الصیام (2918)2/175)
"کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز ادا نہ کرے اور نہ کوئی دوسرے کی طرف سے روزے رکھے لیکن دوسرے کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مد گندم کھانا دیا جائے گا۔"
اس اثر میں روزے سے مراد نذر کا ہی روزہ ہے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر والے اثر سے واضح ہے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ میت کی جانب سے صرف نذر کے روزے پورے کرنے چاہئیں اگر فرض روزے ہوں تو ان کے لیے فدیہ دیا جائے ۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"سمعت احمد بن حنبل رحمة الله عليه قال :لا يصام عن الميت إلا النذر" (مسائل ابو داؤد (196)"میں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے سنا:انھوں نے فرمایا:میت کی طرف سے نذر کے روزوں کے علاوہ روزے نہ رکھے جائیں۔"
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"فطائفة حملت هذا على عمومه وإطلاقه وقالت : يصام عنه النذر والفرض ، وأبت طائفة ذلك وقالت : لا يصام عنه نذر ولا فرض ، وفصلت طائفة فقالت : يصام عنه النذر دون الفرض الأصلي ، وهذا قول ابن عباس وأصحابه ، والإمام أحمد وأصحابه ، وهو الصحيح لأن فرض الصيام جار مجرى الصلاة ، فكما لا يصلي أحد عن أحد ولا يسلم أحد عن أحد فكذلك الصيام ، وأما النذر فهو التزام في الذمة بمنزلة الدين" (اعلام الموقعین :3/554)"علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کو عموم واطلاق پر ہی محمول کیاہے اور کہا ہے میت کی طرف سے نذر اور فرض دونوں روزے رکھے جائیں اور ایک جماعت نے اس بات کا انکار کیا اور کہا نہ اس کی طرف سے فرض روزے رکھے جائیں اور نہ ہی نذر کے اور ایک جماعت نے تفصیل کی ہے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں اور فرض روزے نہ رکھے جائیں ۔ یہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کےساتھیوں کا قول ہے اور یہی صحیح ہے اس لیے کہ فرضی روزے نماز کی طرح ہیں۔جیسے نماز دوسرے آدمی کی طرف سے ادا نہیں کی جا سکتی اور نہ کسی دوسرے کی طرف سے اسلام قبول کیا جاتا ہے اسی طرح فرضی روزے بھی دوسرے کی جانب سے ادا نہیں ہو سکتے اور نذر قرض کے مقام پر ہے اور ولی سے نذر کی قضا قبول ہو گی جیسے وہ قرض ادا کرتا ہے
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کی مزید وضاحت "تہذیب السنن 3/289،282،میں کی ہے۔ وہاں ملاحظہ کریں۔(بحوالہ کتاب الجنائز للشیخ الالبانی حفظہ اللہ تعالیٰ)
میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی خواہ ولی کرے یا کوئی اور شخص جب قرض کی ادائیگی ہو جائے گی تو میت کو اس کا نفع بھی ملتا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی فوت ہو گیا۔ ہم نے اسے غسل دے کر کفن پہنایا۔ خوشبو لگائی اور جنازہ گاہ میں رکھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جنازہ کی اطلاع دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے فرمایا:شاید تمھارے ساتھی کے ذمے قرض کی ادائیگی ہے؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا ہاں دو دینار اس پر قرض ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا اپنے ساتھی پر تم جنازہ پڑھو۔ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی ادائیگی کردوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے وہ دودینارتجھ پر تیرے مال سے ادا کرنا لازم ہے اور میت ان سے بری ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتے تو کہتے تو نے دویناروں کا کیاکیا؟ انھوں نے کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ابھی کل فوت ہوا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ملے تو یہی بات پوچھی تو ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے وہ قرض ادا کر دیا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اب اس پر اس کی جلدٹھنڈی ہو گئی یعنی قرض کی ادائیگی سے اس پر سے سختی اُٹھ گئی۔
(مستدرک حاکم 2/58بیہقی 6/74۔75۔مسند طیالسی (1673)مسند احمد 3/330)مجمع الزوائد 3/39)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کوئی شخص بھی کر سکتا ہے جب قرض کی ادائیگی ہو تو میت کو نفع ملتا ہے۔ اس معنی کی کئی ایک احادیث اور بھی موجود ہیں۔
1۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔
(بخاری کتاب الوصایا باب مایستحب لمن توفی فجاۃ ان یتصدقواعنہ وقضا ء النذورعن المیت (2760۔1388)ابو داودکتاب الوصایا (2881)مسلم کتاب الزکوۃ باب وصول ثواب الصدقہ عن المیت الیہ (51۔1004)نسائی کتاب الوصایاباب اذامات الفجاۃھل یستحب لاھلہ ان یتصدقواعنہ (3651)ابن ماجہ کتاب الوصایا(2717) بیہقی 4/62)مسند احمد 2/51)
"ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر مرتے وقت وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی۔کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں تو اس کی طرف سے صدقہ کر۔"
2۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(بخاری کتاب الوصایا (27702756۔2762۔ابو داؤد کتاب الوصایا (2882)
ترمذی کتاب الزکاۃ باب ماجاء فی الصدقہ عن المیت (229)نسائی کتاب الوصایا باب فضل الصقہ عن المیت(3656،3657)بیہقی 2/278)
"ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کی ماں فوت ہو گئی ہےاگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں کیا اسے نفع ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ۔تو اس آدمی نے کہا میرا ایک پھل دار باغ ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے وہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔"
بخاری (2752،2762)میں صراحت ہے کہ وہ آدمی سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھےوہ اپنی ماں کی وفات کے وقت غائب تھے پھر انھوں نے یہ سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(نسائی کتاب الوصایا (3654)مسلم کتاب الوصیۃ باب وصول ثواب الصدقات الی المیت (11۔1630)بیہقی 2/278)مسند احمد 2/371)ابن ماجہ کتاب الوصایا (2716)
"ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے ترکے میں مال چھوڑا ہے۔ اور وصیت نہیں کی میرا اس کی طرف سے صدقہ کرنا کیا اس کے لیے کفارہ بنے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔"
4۔عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے 100غلام آزادکیے جائیں اس کے بیٹے ہشام نے 50 غلام اس کی طرف سے آزاد کر دئیے ۔ اس کے بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی 50غلام وہ آزاد کر دے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ نے 100 غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی جن میں سے 50 غلام ہشام نے آزاد کردئیے ہیں جبکہ 50غلام آزاد کرنے باقی ہیں کیا میں اس کی طرف سے آزاد کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر وہ مسلمان ہوتا تو تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو اس کا اجر اسے پہنچتا۔"
ابو داؤد کتاب الوصایا (2883) بیہقی 6/279نیز مسند احمد 2/182 میں ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرارکیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزے یا صدقہ کرتا تو اسے اس کا نفع ہوتا۔"
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اولاد والدین کی طرف سے اگر صدقہ کریں۔غلام آزاد کریں تو انہیں نفع ہوتا ہے بشرطیکہ والدین نے توحید کا اقرارکیا ہو۔ مشرک والدین کو فائدہ نہیں ہوتا۔ نیک اولاد والدین کی کمائی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اولاد کے علاوہ دیگر افراد کا میت کی طرف سے صدقہ کرنا محتاج دلیل ہے۔قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"وأحاديث الباب تدل على أن الصدقة من الولد تلحق الوالدين بعد موتهما بدون وصية منهما ، ويصل إليهما ثوابها ، فيخصَّص بهذه الأحاديث عموم قوله تعالى (( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى )) ، ولكن ليس في أحاديث الباب إلا لحوق الصدقة مِن الولد ، وقد ثبت " أن ولد الإنسان من سعيه " فلا حاجة إلى دعوى التخصيص ، وأما مِن غير الولد : فالظاهر مِن العمومات القرآنية : أنه لا يصل ثوابُه إلى الميت فيوقَف عليها حتى يأتي دليل يقتضي تخصيصها . (نیل الوطار4/105)تحت باب وصول ثواب القرب المهداة الی الموتیٰ )""ا س باب کی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اولاد کی طرف سے صدقہ والدین کی وصیت کے بغیر ان کی وفات کے بعد انہیں ملتا ہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے ان احادیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے فرمان (نہیں ہے انسان کے لیے مگر وہی جو اس نے کوشش کی) کے عموم کی تخصیص کی جاتی ہے لیکن باب کی احادیث میں صرف اولاد کے صدقے کا ذکر ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی و کوشش سے ہے لہٰذا تخصیص کے دعوے کی حاجت نہیں بہر کیف اولاد کے علاوہ دیگر افراد قرآنی عمومات میں شامل ہیں ان کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ۔ اس پر توقف کیا جائے گا یہاں تک کہ ایسی دلیل مل جائے جو تخصیص کا تقاضا کرے۔"
معلوم ہوا کہ اولاد کے علاوہ دیگر افراد کا میت کی طرف سے صدقہ کرنا بے دلیل ہے۔
میت کی طرف سے حج کرنے کی ایک دلیل تو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے جو کہ اوپر ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے گزر چکی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔
(بخاری کتاب جزاء الصیدباب الحج والنذور عن المیت (1852)نسائی کتاب المناسک (2632،2631)مسند احمد 1/239،279،345)
"جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔اس نے کہا :میری ماں نے حج کرنے کی نذرمانی تھی اس نے حج نہ کیا یہاں تک کہ فوت ہو گئی ۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں تو اس کی طرف سے حج کرو۔ بتاؤ کیا تیری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی ؟ اللہ کا حق ادا کرو۔ اللہ وفا کا زیادہ حق دار ہے۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج اگر کیا جائے تو اسے نفع ہوتا ہے مذکورہ بالا اعمال کے علاوہ قل ، تیجے ،ساتویں ، چالیسویں قرآن خوانی وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا ذکر کسی بھی حدیث صحیح میں موجود نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف رسوم ہیں شرع سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ امام العزبن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا:
" ومن فعل طاعة لله تعالى ثم اهدى ثوابا إلى حى أوميت لم ينتقل ثوابها إبيه﴿ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾...النجم فإن شرع فى الطاعة ناويا أن يقع عن الميت لم يقع إلا فيما إستثناه الشرع كالصدقة والصوم و الحج و الدعاء و الإستغفار."(کتاب الجنائز للشیخ الالبانی حفظہ اللہ تعالیٰ ص: 220)
"جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کیا پھر اس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخشا تو اللہ کی اطاعت کا ثواب اسے نہیں پہنچے گا کیونکہ قرآن میں ہے ۔(انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) اگر کسی اطاعت کی ابتداء اس نیت سے کی کہ اس کا ثواب فلاں میت کو مل جائے تو یہ میت کی طرف سے واقع نہیں ہو گی ۔ہاں وہ چیزیں میت کی طرف سے واقع ہوں گی جنہیں شریعت نے مستثنیٰ قراردیا ہے جیسے صدقہ ،روزہ، اور حج،"
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ اور آئمہ محدثین کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ میت کو صرف انہی اعمال کا فائدہ ہوتا ہے جن کا بالتفصیل اوپر ذکر کر دیا گیا ہےاس کے علاوہ تیجہ ،ساتواں چالیسواں،گیارھویں شریف، قرآن خوانی جیسے امور کا کسی صحیح حدیث میں تذکرہ نہیں ہے یہ ہنود کی رسوم ہیں تفصیل کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کی"تحفۃ الہند" کا مطالعہ کریں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب