آج کل نوجوان نسل خود کشی Sucideکی طرف بہت زیادہ مائل ہے ذرا گھر والوں نے ڈانٹا تو موت کو گلے لگا لیا جو مردیا عورت خود کشی کرے۔کیا اس کا جنازہ جائز ہے، اور اس کو دفن کیسے اور کہاں کریں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔(ابو طیب خالد سجانوی ،حافظ آباد)
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بیمار ہو گیا۔ اس پر چیخ و پکار کی گئی۔اس کا پڑوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ وہ مر گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا۔ اس نے کہا میں نے اسے دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ نہیں مرا ۔ وہ آدمی واپس لوٹا تو اس آدمی پر چیخ و پکار کی جا رہی تھی۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ مر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نہیں مرا۔ وہ پھر واپس لوٹا اس پر چیخ و پکار کی جا رہی تھی ۔اس آدمی کی بیوی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر انہیں خبر دے تو اس آدمی نے کہا اے اللہ اس پر لعنت کر۔ پھر وہ آدمی اندر گیا۔ اس نے جاکر دیکھا کہ اس نے اپنے نیزے کے پھل کے ساتھ اپنا گلا کاٹ لیا ہے پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ اب مر گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کیسے معلوم ہوا اس نے کہا میں نے اسے دیکھا ہے کہ اس نے اپنے تیر کے پھل کے ساتھ اپنا گلا کاٹ لیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاأصلي عليه.میں اس پر جنازہ نہیں پڑھوں گا۔
(ابو داؤد (3185)واللفظ لہ مسلم کتاب الجنائز باب ترک الصلاۃ علی القاتل نفسہ (978)مختصر 10)نسائی 1/179ترمذی 2/161ابن ماجہ1/488۔
(1534)حاکم1/364بیہقی 4/19مسند طیالسی (779)مسند احمد 5/87،91،92،94،97،102،107۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ نہیں پڑھی۔مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب"کتاب الجنائز "ص61،62۔میں جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث اور اس سے قبل ایک خائن آدمی کا جنازہ پڑھنے کی روایت نقل کر کے لکھا ہے کہ:
"اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فاسق بد کار مسلمان کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھنی چاہیے چنانچہ یہی مذہب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کا ہے مگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا یہ مذہب ہے کہ فاسق کے جنازہ کی نماز پڑھنی چاہیے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بذاتہ نماز نہیں پڑھی تھی لوگوں کی عبرت و تنبیہ کے لیے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پڑھی تھی اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نسائی کی روایت میں ہے کہ " لیکن میں اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھوں گا"رہا اس کو دفن کرنے کا معاملہ تو اسے قبرستان میں ہی دفن کر دیں۔ واللہ اعلم ۔
مندرجہ بالا بحث سے واضح ہوتا ہے کہ بہر کیف مسلم معاشرے کے ممتاز صاحب علم و بصیرت افراد ایسے لوگوں کا جنازہ نہ پڑھائیں ۔البتہ عوام الناس اس کا جنازہ پڑھ لیں کیونکہ مرنے والا مسلمان آدمی ہے۔ جب قوم کے ممتاز افراد ایسے لوگوں کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے تو اس طرح ایسے فاسق اور بے عمل افراد کو تنبیہ ہوگی اور برائی کی حوصلہ افزائی نہ ہو گی (مجلہ الدعوۃ جون 1997ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب