سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) راستہ میں رکاوٹ بننے والے مسجد کے محراب کا حکم

  • 20846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2893

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نقشے کے مطابق کسی سڑک یا گلی کی حدود میں مسجد کا محراب یا کوئی اور حصہ تعمیر کے وقت بڑھا دیا جائے جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہو تو اسے گرایا یا شہید کیا جا سکتا ہے؟یا یہ کہ مسجد کی تعمیر تو اپنی حدود میں ہی ہے مگر بعد میں سڑک یا گلی کو کشادہ کرنے کی ضرورت پیش آگئی تو اب ایسی صورت میں مسجد کا کچھ حصہ شہید کیا جا سکتا ہے یا پوری مسجد ہی کہیں اور منتقل کر دی جائے۔(طلبہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو چیز وقف کر دی جائے اسے ہبہ کرنا فروخت کرنا یا کسی اپنی شخصی ضرورت کے لیے استعمال کرنا درست نہیں جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے۔

"فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُبْتَاعُ وَلَا يُورَثُ وَلَا يُوهَبُ"

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی خیبر والی زمین کو وقف کر دیا تھا۔ اس حدیث میں یہ بات ہے کہ اس زمین کا اصل نہ فروخت کیا جا سکتا ہے نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے اور نہ ہی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے، مسجد بھی اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں۔

﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورةالجن

"اور مسجد یں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں( اس کی عبادت کے لیے)اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔"

دوسری بات یہ ہے کہ مسجدیں بنانے کا حکم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہےحضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ ( أي الأحياء ) وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ "

(ابو داؤد،ترمذی، ابن ماجہ وقال البانی اسنادہ صحیح)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ان کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھاجائے۔" 

مسجد کو گرانا آپ کے حکم کے خلاف ہے اس لیے مسجد کو بلاوجہ گرانا یا کسی شخص کا صرف اپنے تصرف میں لے آنا اور اس کی فروخت وغیرہ کرنا درست نہیں ہاں!اگر مسجد ایسی جگہ پر ہے جہاں لوگ اس سے مستفید نہیں ہو سکتے  یا وہ کہیں راستے میں ہے جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے یا کسی اور مصلحت  کے لیے مسجد ایک جگہ سے ختم کر کے دوسری جگہ تعمیر کرنا درست ہے۔

اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ کوفہ میں بیت مال المسلمین کونقب لگا کر کسی نے چوری کر لی۔نقب لگانے والا بھی پکڑا گیا۔ اس وقت بیت المال کے نگران عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے انھوں نے امیر المومنین عمر بن الخطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف لکھا تو انھوں نے جواب دیا۔ "أن انقل المسجد وصير بيت المال في قبلته" کہ مسجد کو یہاں سے اس کی طرح منتقل کر لو کہ بیت المال مسجد کے قبلہ میں آجائےاور مسجد میں کوئی نہ کوئی نمازی تو ضرور ہوتا ہے(اس سے بیت المال محفوظ ہو جائے گا)تو سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مسجدوہاں سے ختم کر کے کھجوروں کی منڈی میں بنادی اور منڈی کو مسجد والی جگہ منتقل کر دیا۔ بیت المال بھی مسجد کے قبلہ میں بن گیا۔(فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )

یہ سب کچھ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی موجود گی میں ہو رہا تھا کسی نے بھی اس سے نہ روکا۔ اگر یہ درست نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اس کا ضرور انکار کرتے۔

ایک اور بھی دلیل ہے کہ جس سے اہل علم استدلال کرتے ہیں اور وہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے کہا:

"لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ ، فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ"

"اگر تیری قوم میں نئے نئے مسلمان نہ ہوتے تو میں کعبہ کی عمارت توڑ دیتا اور اس کو زمین سے نلا دیتا (یعنی دروازہ اونچانہ رہتا ) اور اس کے دروازے بنادیتا ایک اندر جانے اور دوسرا نکلنے کے لیے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقف کی عمارت وغیرہ کو تبدیل کرنا جائز ہے۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ اظہار نہ کرتے اور مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یہ بھی تبدیلی کی ایک قسم ہے لہٰذا جائز ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب مصلحت اس کا تقاضا کرتی ہو اور کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کعبہ کے متعلق اپنی خواہش کے اظہار کے باوجود فتنے سے بچنے کے لیے ایسا نہ کیا۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ جس چیز کی نذرمانی گئی ہو۔ وہ بھی وقف ہو جاتی ہے۔

اس کو تبدیل کرنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان سے ثابت ہے۔ مثلاً ایک شخص نذر مانتا ہے کہ میں اپنے گھر کو مسجد بناؤں گا پھر وہ اس سے زیادہ اچھی جگہ پر مسجد بنوادیتا ہے تو یہ درست ہے۔ دلیل اس کی مسند احمد  رحمۃ اللہ علیہ اور سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کی حدیث ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں۔ ایک شخص فتح مکہ کے موقع پر کھڑا ہوا اور کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے نذرمانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس جا کر نماز پڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے کہا: "صَلِّ هَاهُنَا " یہیں مسجد نبوی میں پڑھ لے، اس نے پھر وہی بات کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے تیسری مرتبہ پھر دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: " فَشَأْنَكَ إِذًا "جس طرح مرضی کر۔ اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں۔

"وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ لَوْ صَلَّيْتَ هَا هُنَا لأَجْزَأَ عَنْكَ صَلاَةً فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ "

 "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو بیت المقدس کی بجائے مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز ادا کرنے کا کہا اور کہا کہ اگر یہاں پڑھتا تو یہ تجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے افضل ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو افضل کی طرف رہنمائی کردی۔"

باقی رہا محراب کا مسئلہ تو محراب نہ تو مسجد کا جزء ہے نہ مسجد کے لیے ضروری ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ہوتے تھے۔اگر کسی مسجد کا محراب راستہ میں بنایا گیا ہے تو اسے دور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(ازع۔ع مجلۃ الدعوۃ اکتوبر 1997ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب المساجد۔صفحہ نمبر 219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ