کیانابالغ بچے بچیاں مسجد میں آسکتے ہیں صحیح دلائل سے راہنمائی فرمائیں اور یہ بھی واضح کریں کہ جب کبھی یہ بچے مسجد میں شور کریں اور نمازیوں کے لیے لڑائی جھگڑے کا سبب بن جائیں تو پھر کیا حکم ہے؟(نصرا للہ ،لاہور)
مساجد میں نابالغ لڑکے اور لڑکیوں کا آنا شرعاً جائز و مستحب ہے جبکہ وہ پاک و صاف ہوں۔
1۔ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
(مؤطا کتاب قصر الصلاۃ فی السفر باب جامع الصلاۃ (81)بخاری کتاب الصلاۃ باب اذا حمل جاریہ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (516)و کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقیلہ ومعانقتہ (5996)مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ (543)شرح السنہ 2/263،264)(741۔742)
یہی حدیث مفصل طور پر ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب العمل فی الصلاۃ (920) شرح السنہ 3/265(743)وغیرہما میں مروی ہے)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے جو کہ ابو العاص بن ربیعہ کی بیٹی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تو اسے نیچے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے۔"
2۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔
(نسائی کتاب الجمعہ باب نزول الامام عن المنبر قبل فراغہ من الخطبہ و قطعہ کلامہ (1412)و کتاب العیدین باب نزول الامام عن المنبر قبل فراغہ من الخطبہ (1584)ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب الامام یقطع الخطبہ للا مریحدث (1109)ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین (3774)ابن ماجہ کتاب اللباس باب لیس الا حمر للرجال (3600)مسند احمد 5/354تفسیرطبی28/81)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرخ قمیصیں زیب تن کیے ہوئے گرتے ہوئے آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے ۔ اپنا کلام منقطع کیا۔ پھر ان دونوں کو اٹھا کر منبرپر تشریف لے آئے ۔ پھر فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ کہا"تمھارے مال اور اولاد فتنہ ہیں"میں نے ان دونوں بچوں کو گرتے ہوئے قمیصوں میں دیکھا تو صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی بات کو روک کر انہیں اٹھالیا۔"
3۔ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی (707)و باب انتظار الناس قیام الامام العالم (868)نسائی کتاب الامامۃباب ما علی الامام من التخفیف (824)ابوداؤدکتاب الصلاۃ باب تخفیف الصلاۃ للامر(789)ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب الامام تخفیف الصلاۃ اذا حدث امر(991) مسند احمد5/305)
"میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ قرآءت لمبی کروں پس میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ اس کی ماں کومشقت میں ڈال دوں گا۔"
4۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
(صحيح مسلم كتاب الصلاة باب امر الائمه بتخفيف الصلاة في تمام (470)ترمذی ابواب الصلاۃ (376)مسند احمد 3/109،153،156،182،205)
"نماز کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچے کی اپنی ماں کےساتھ رونے کی آواز سنتے تو چھوٹی سورۃ کی تلاوت کرتے۔"
مذکورہ بالا حادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے لیکن یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچے صاف ستھرے ہوں مسجد میں گندگی کی و ناپاکی نہ پھیلے ۔امام نووی انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے تحت رقم طراز ہیں۔
"وفيه جواز صلاة النساء مع الرجال في المسجد وان الصي يجوز ادخاله المسجد وان كان الأولى تنزيه المسجد عمن لا يؤمن منه حدث "(شرح مسلم للنووی 4/156)"اس حدیث میں مسجد کے اندر مردوں کے ہمراہ عورتوں کے نماز پڑھنے کا جواز ہے اور اسی طرح بچوں کو مسجد میں لانا بھی جائز ہے۔ اگرچہ جس کی ناپاکی سے بچا نہیں جا سکتا اس سے مسجد کو بچانا اولیٰ ہے۔"
اور وہ روایت درست نہیں جس میں آتا ہے۔
(حاشیہ شرح السنہ 3/265)کشف الخفاء ومزیل الالباس 1/334المقاصد ص 75،الفوئد المجموعہ فی الاحدیث الموضوعہ ص:25۔تحقیق مختصر المقاصد ص:108)
"اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔"
حافظ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے، امام بزار رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ الاشبیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہالا أصل له اس کی کوئی اصل نہیں۔
یاد رہے کہ اگر بچے مسجد میں شورو غوغا کریں،نمازیوں کے لیے تشویش کا باعث بنیں تو ایسی صورت میں بچوں کو مسجد میں لانے سے اجتناب بھی کیا جا سکتا ہےکیونکہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانا جائز تو ہے لیکن واجب نہیں اور امر جواز پر اصرار کرنا درست نہیں بالخصوص جب مسجد میں بچوں کی بنا پر جھگڑا و فساد وغیرہ کھڑا ہو تو جواز پر اصرار کرنا مکروہ ہوگا۔ اس کی مثال یہ سمجھ لیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں ایک باب یوں منعقد کیا ہے۔"باب الانفتال والانصراف عن الیمین والشمال "یعنی نماز پوری کر کے دائیں اور بائیں جانب پلٹنے کا بیان ۔ پھر اس میں ذکر کرتے ہیں کہ:
"وكان أنس ينفتل عن يمينه وعن يساره ويعيب على من يتوخى أو من يعمد الانفتال عن يمينه ""اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ دائیں اور بائیں دونوں جانب پھر کر بیٹھتے تھے اور جو آدمی جان بوجھ کر دائیں جانب پھر کر بیٹھتا اس پر اعتراض کرتے تھے۔؟
اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث درج کی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے۔
"تم میں سے کوئی آدمی اپنی نماز میں سے شیطان کا حصہ مقررنہ کرے کہ خواہ مخواہ یہ سمجھے کہ نماز سے پھر کردائیں طرف بیٹھنا ہی لازم ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دفعہ دیکھا کہ آپ بائیں جانب پھرتے تھے۔"
اس باب اور حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز سے سلام پھیر کر دائیں اور بائیں دونوں جانب پھرنا درست و جائز ہے لیکن اگر اس جائز کام کو کوئی شخص لازم جان لے اور صرف ایک طرف ہی پھرنے پر اصرار کرے تو یہ شیطان کی کارستانی ہے جو کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے واضح ہے۔ شارح بخاری امام ابن المنیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"ابن المنير: فيه أن المندوبات قد تنقلب مكروهات إذا رفعت عن رتبتها؛ لأن التيامن مستحب في كل شيء أي من أمور العبادة، لكن لما خشي ابن مسعود أن يعتقدوا وجوبه أشار إلى كراهته"(فتح الباری2/338۔ارشاد الساری2/145۔مرعاۃ المفاتیح 3/301)
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ مباح امور اس وقت مکروہ ہو جاتے ہیں جب انہیں ان کے مقام سے بلند کر دیا جائے۔اس لیے کہ عبادت کے تمام امور میں دائیں جانب کا لحاظ کرنا مستحب ہے لیکن جب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں لوگ دائیں طرف پھر نے کو واجب سمجھنے لگے ہیں تو انھوں نے اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ دیا ۔"
امام طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"قال الطيبي فيه ان من أصر على أمر مندوب وجعل عزما ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الاضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر"(شرح الطیبی علی مشکوۃ المصابیح 3/105مرعاۃ المفاتیح 3/301مرقاۃ المفاتیح 3/31)
"اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو آدمی کسی مندوب و مباح کا م پر اصرارکرے اور اسے لازم قراردے لے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو اسے شیطان نے گمراہ کر دیا ہے، جب مباح و جائز کام پر اصرارکا یہ حال ہے تو جو شخص کسی بدعت پا منکر پر اصرار کرے اس کا نتیجہ کیسا ہوگا۔"
مذکورہ بالااحادیث صحیحہ صریحہ کا خلاصہ یہ ہے کہ نابالغ بچوں کا مسجد میں آنا جائز و درست ہے لیکن اگر یہ بچے نمازیوں کی نماز میں خلل اور مسجد میں فتنے و فساد کا باعث بن جائیں تو انہیں مسجد میں لانے سے گریز کیا جاسکتا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب