سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) مساجد میں چندہ مانگنے والوں کا آواز بلند کرنا

  • 20842
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 3785

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ مساجد میں آکر نماز کے سلام پھرنے سے متصل کھڑے ہو کر مساجد و مدارس کی تعمیر کے لیے اس طرح اعلان کرتے ہیں۔ نہ صرف نمازیوں کی نماز میں فرق آتا ہے،خشوع خضوع متاثر ہوتا ہے بلکہ اکثر دفعہ اس طرح بھی ہوا کہ نماز کے بعد کے اذکار پڑھتے ہوئے سہو ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ صرف یہ اعلان کرنے والے بنتے ہیں۔ کیا مساجد میں اس طرح آواز بلند کرنا کہ نمازیوں کا خشوع وخضوع متاثر ہو، درست ہے۔ اسی طرح لاؤڈ سپیکر کا بے جا استعمال کرنا کیسا ہے؟ (مقصود صاحب لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد اللہ وھدہ لا شریک کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورةالجن

"اور یقیناً مسجدیں اللہ کے لیے ہیں پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔"

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مساجد اللہ کی ہیں ان میں اُسی کی پکاروعبادت ہونی چاہیے اور اسی کا نام بلند ہونا چاہیے جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿فى بُيوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرفَعَ وَيُذكَرَ فيهَا اسمُهُ...﴿٣٦﴾... سورةالنور

"(اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے)ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حکم دیا ہے۔"

اس آیت میں مساجد کی تعمیر کا مقصود واضح ہے کہ اس میں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہونی چاہیے اور اس کا نام بلند ہو نا چاہیے۔

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اعرابی آیا تو وہ مسجد میں پیشاب کرنے لگا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اسے ڈانٹنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اس پر اس کا پیشاب منقطع نہ کرو۔"اسے چھوڑدو۔جب اس نے پیشاب کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بلا کر فرمایا:

" إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ ، لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ ، وَلَا الْقَذَرِ ، إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاةِ ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ "

(مسلم کتاب الطہارۃباب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات (285)المسند المستخرج علی صحیح مسلم (254)مسند احمد 3/191شرح السنۃ3/1400اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم  لابی الشیخ ص:71)

"بلاشبہ مساجد پیشاب و گندگی کے لیے نہیں ہوتیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کےذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےفرماتے ہیں۔

"فيه صيانة المساجد وتنزيهها عن الأقذار، والقذى، والبصاق، ورفع الصوت والخصومات، والبيع والشراء، وسائر العقود، وما في معنى ذلك."

(شرح مسلم للنووی3/164)

"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجدوں کو ہر قسم کی گندگیوں کوڑا کرکٹ ، تھوک ،اونچی آوازوں ، جھگڑوں، خریدو فروخت اور تمام اس قسم کے معاملات سے بچانا ضروری ہے۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کی توضیح سے معلوم ہوا کہ مسجد میں جس طرح خریدو فروخت ،کوڑاکرکٹ اور گندگی وغیرہ برقراررکھنا منع ہے۔ اسی طرح آواز بلند کرنا بھی آداب مسجد کے خلاف ہے۔ اسی طرح وہ حدیث جس میں مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا منع قراردیا گیا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا،شوروغیرہ منع ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللَّهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا"

(مسلم کتاب المساجد باب النھی عن نشد الضالہ فی المسجد (568)المسند المستخرج علی صحیح مسلم (1240۔1239)ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب فی کراھیہ انشادالضالۃ فی المسجد (473)ابن ماجہ کتاب المساجد باب النبی عن انشاد الضوال فی المسجد (767)مسند ابو عوانہ 1/406) ابن خزیمہ (1302)بیہقی 10/102،3/447۔مسند احمد 2/349۔420)

"جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ اسے کہہ دے اللہ تعالیٰ تیری چیز تجھ پر نہ لوٹا ئے۔کیونکہ مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں۔"

مسلم شریف میں دوسری حدیث کے اندر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا وَجَدْت إِنَّمَا بُنِيَتْ الْمَسَاجِد لِمَا بُنِيَتْ لَهُ "

"تو یہ چیز نہ پائے مسجدیں تو محض عبادت اور ذکر و اذکار کے لیے بنائی گئی ہیں۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  ان دونوں حدیثوں کی شرح میں فرماتے ہیں۔

"في هذين الحديثين فوائد منها : النهي عن نشد الضالة في المسجد ، ويلحق به ما في معناه من البيع والشراء والإجارة ونحوها من العقود ، وكراهة رفع الصوت في المسجد"

 (شرح مسلم للنووی5/46)

"ان دونوں حدیثوں میں کئی ایک فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ گم شدہ چیز کا اعلان کرنا مسجد میں منع ہے، اور یہی حکم ہر اس بات میں ہے جو اس معنی میں ہو جیسے خریدو فروخت ،اجارہ اور اس جیسے دیگر معاملات اور مسجدمیں آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے۔"

کیونکہ جب آدمی مسجد میں گم شدہ چیز کا علان کرے گا تو نماز یوں کی نماز میں اس کے آواز بلندکرنے سے خلل واقع ہوگا اور ان کے خشوع وخضوع اور تذلل و عاجزی میں فرق آئے گا۔ جس بنا پر ایسا اعلان منع ہے تو اسی طرح مسجد میں نمازوں کے بعد چندہ وغیرہ لینے والے افراد کا ایسا اعلان بھی درست نہ ہو گا جس سے نماز یوں کی نماز میں خلل واقع ہوگا۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"النهي عن نشد الضالة في المسجد، ويلحق به ما في معناه من البيع والشراء والإجارة ونحوها من العقود،" (عون المعبود 1/177۔)

"اس حدیث میں گم شدہ چیز کے لیے مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت ہے اور اسی طرح ہر وہ مسئلہ جو اس کے معنی میں ہو جیسے خریدو فروخت ،اجارہ اور دیگر معاملات۔"

ایسی بلند آوازیں جو نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتی ہیں۔ان کی ممانعت کے بارے میں چند ایک احدیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔

"(عَنِ الْبَيَاضِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَقَدْ عَلَتْ أَصْوَاتُهُمْ بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ)

(شرح السنہ 3/87(608)موطا مالک کتاب الصلاۃ باب العمل (1/90)

"بیاضی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں پر نکلے اور وہ نماز ادا کررہے تھے اور قرآءت قرآن کے ساتھ ان کی آوازیں بلند تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یقیناً نمازی اپنے رب سے سر گوشی کرتا ہے اسے یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کس سے سر گوشی کر رہا ہے ۔ تم ایک دوسرے پر اونچی آواز میں قرآن نہ پڑھو۔"

امام ابن عبد البرنے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے(التمہید :23/319)اس حدیث کی شرح میں امام بن  عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔

"واذا لم يجر للتالي المصلي رفع صوته لئلا يغلط ويخلط علي مصل  الي جنبه فالحديث في المسجد مما يخلط علي المصلي اولي بذلك والزم وامنع واحرم" (التمہید:23/319)   

"جب ایسا نمازی جو تلاوت کر رہا ہو، اس کے لیے آواز بلند کرنا جائز نہیں تاکہ اس کے ساتھ نماز ازا کرنے والے نمازی کی نماز میں غلطی و اختلاط واقع نہ ہو تو مسجد میں ایسی آوازیں بلند کرنا جو نماز ادا کرنے والے کی نماز میں اختلاط ڈال دے اس سے زیادہ حرمت و ،ممانعت کی متقاضی ہے۔"

مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی آوازیں بلند کرنا جو مسجد میں نمازیوں کی نماز خراب کردے ۔منع و حرام ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہےکہ:

"عن أبي سعيد الخدري – رضي الله عنه – قال: اعتكف رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المسجد فسمعهم يجهرون بالقراءة فكشف الستر وقال: "ألا إن كلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضكم بعضاً، ولا يرفع بعضكم على بعض في القراءة". أو قال: "في الصلاة"

(ابوداؤدکتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراء فی صلاۃ اللیل (1332)التمہید23/318ابن خزیمہ(1162)عبد الرزاق(4216)مسند احمد 3/94)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اعتکاف میں بیٹھے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اونچی آواز سے قرآءت کرتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پردہ ہٹا کر فرمایا:خبردار تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سر گوشی کر رہا ہے۔ تم ہر گز ایک دوسرے کو تکلیف نہ دو اور نہ ہی ایک دوسرے پر بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرو۔"

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلّم  فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَاتُّخِذَ لَهُ فِيهِ بَيْتٌ مِنْ سَعَفٍ، قَالَ: فَأَخْرَجَ رَأْسَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: (إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ بِمَا يُنَاجِي رَبَّهُ، وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقِرَاءَةِ"

(مسند احمد2/129۔اس کی سند صحیح ہے فقہ السنہ1/22)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے کھجور کی شاخوں کا گھر بنایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خیمہ سے سر نکالا اور فرمایا:بے شک نمازی اپنے رب عزت و جلال والے سے سر گوشی کرتا ہے پس اسے یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کس سے سر گوشی کر رہا ہے تم ایک دوسرے پر اونچی آواز سے قرآن نہ پڑھو۔"

ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اونچی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت بھی ممنوع ہے جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہو۔لہٰذا جب قرآن کی بلند آواز سے ایسی تلاوت ممنوع ہے جو نمازیوں کی نماز خراب کرےاور  تشویش کا باعث ہو تو چندے، وغیرہ کے لیے ایسا اعلان کیسے جائز ہوگا جس سے ذکرو اذکار ،تلاوت اور نماز میں خلل واقع ہوتا ہو۔ اور ایسی آواز جس سے نمازیوں کو تکلیف ہو اور تشویش کا باعث ہو، اس پر بڑی سخت وعید بھی بتائی گئی ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بیت اللہ میں جب نماز ادا فرماتے تو کفار بلند آواز سے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دلجمی و اطمینان سے نماز ادا نہ کر سکیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَما كانَ صَلاتُهُم عِندَ البَيتِ إِلّا مُكاءً وَتَصدِيَةً فَذوقُوا العَذابَ بِما كُنتُم تَكفُرونَ ﴿٣٥﴾... سورةالانفال

"اور ان کی نماز بیت اللہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں مارنا، سو عذاب کا مزہ چکھو جو تم کفر کرتے تھے۔"

امام مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"يَخْلِطُونَ بِذَلِكَ كُلّه عَلَى مُحَمَّد صَلَاته "

(تفسیر ابن ابی حاتم5/1696۔تفسیر  قرطبی 7/254وتفسیر فتح القدیر2/307)

"مشرکین مکہ سیٹیاں اور تالیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر آپ کی نماز خلط ملط کرنے کے لیے بجاتے تھے۔علامہ عبد اللہ بن احمد النسفی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"وكانوا يفعلون نحو ذلك إذا قرأ رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم في صلاته يخلطون عليه" (تفسیر المدارک1/470)

"مشرکین مکہ سیٹیاں اور تالیاں اس وقت بجاتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی نماز میں قرآءت کرتے تھے تاکہ وہ آپ کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر خلط ملط کردیں۔"

قاضی محمد بن علی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔

"ومعنى الآية: أن المشركين كانوا يصفرون ويصفقون عند البيت الذي هو موضع للصلاة والعبادة، فوضعوا ذلك موضع الصلاة قاصدين به أن يشغلوا المصلين عن الصلاة"

(تفسیر فتح القدیر:2/306)

"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے جو کہ نماز اور عبادت کی جگہ ہے انھوں نے اس کو سیٹیوں اور تالیوں کی جگہ بنا لیا تھا اوران کا مقصود یہ تھا کہ وہ نمازیوں کو نماز سے بے خبر کر دیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکیں۔"

اس آیت کریمہ سے کم از کم یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عبادت کرنے والے کی عبادت میں مخل ہونا مسلمان کاشیوہ نہیں بلکہ کفار کا ہے ۔اور ہر وہ حرکت جو نمازیوں کے لیے نقصان وضرر کا باعث ہو وہ مسجد میں ناجائز و حرام اور عذاب کا باعث ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔

"لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ "

(مسند احمد 5/1327۔ابن ماجہ کتاب الاحکام باب من بنی فی حفہ ما یضر بجارہ (2340)مؤطا مالک کتاب الاقضیہ باب القضاء فی المرفق(31)شیخ البانی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو کثرت طرق کی بنا پر صحیح کہا ہے۔رواء الغلیل 3/407(896)

"نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ خود تکلیف میں پڑو"

اس حدیث کے عموم سے بھی معلوم ہوا کہ کوئی ایسی حرکت جس سے دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچے۔بجا لانا جائز نہیں۔ چونکہ مساجد میں اعلانات ،لاؤڈ سپیکر کا بے جا استعمال،نمازوں کے بعد فوراً کھڑے ہو کر سفیر حضرات کا چندے کے لیے اپیلیں کرنا نمازیوں کی نماز اور عبادت میں خلل کا باعث بنتی ہیں ۔

لہٰذا ان سے مکمل اجتناب کریں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساتھیوں سے ملاقات کر کے مساجد و مدارس کے لیےاپیل کریں، یا خطبہ جمعہ میں خطیب کے ذریعے اعلان کروا لیں یعنی ایسا طریقہ کار اختیار کر لیں جس سے نمازیوں کو تشویش نہ ہو۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب المساجد۔صفحہ نمبر 199

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ