کیا عورتیں مساجد میں دینی وتبلیغی اجتماعات منعقد کرکے ایک دوسرے کو وعظ ونصیحت کرسکتی ہیں۔جس طرح مرد مساجد میں جلسے اور کانفرنسیں کرتے ہیں؟کتاب وسنت کی رو سے مسئلے کی صحیح نوعیت واضح کریں۔(ایک سائلہ،لاہور)
دعوت و تبلیغ ہر مسلمان کا حق ہے خواہ وہ مرد ہویا عورت۔اللہ وحدہ لا شریک نے امر بالمعروف وار نہی عن المنکر جس طرح مردوں کا وظیفہ ذکر کیا ہے اسی طرح عورتوں کے بارے میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والاہے"
اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورت کی صفات وخوبیوں سے ایک خوبی وصفت امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔جس طرح مرد کو اچھی بات کہنے اور بُری بات سے روکنے کاحکم ہے اسی طرح عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اچھی بات کا حکم دے اور بُری بات سے منع کرے یاد رہے صدر اول میں مردوں کے اجتماعات شکل وصورت کے اعتبار سے ہمارے آج کے جلسوں اور کانفرنسوں کی طرح منعقد نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا جواز دعوت وتبلیغ کی عمومی آیات واحادیث سے ماخوذ ہے اسی طرح عورتوں کا معاملہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے بھی دعوت وتبلیغ کا ہر وہ طریقہ درست ہوگا جس میں شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے ا پنے گھر سے نکلیں گی مثلاً عورت باپردہ ہو،مہکنے و الی خوشبو لگا کر نہ نکلے،فیشن ایبل ہوکرنہ نکلے،مردوں سے اختلاط نہ ہو۔اس طرح اجتماعات میں شریک نہ ہوں جیسے آج کل گلوکارائیں اور اداکارائیں فیشن ایبل ہوکر سٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔یوں معلوم نہ ہوکہ وہ کسی فیشن شویا حسن وآرائش کے مقابلہ کے لیے آئی ہیں بلکہ مکمل طور پر شرعی لباسوں میں ملبوس اور آرائش ونمائش سے مبرا ہوکر دعوت وتبلیغ کے اجتماعات میں آئیں اور اگر تبلیغی اجتماع گھر سے دور ہوتو ایسے سفر پر نکلنے کے لیے اپنے محرم کو ساتھ لے کر جائیں محرم کے بغیر بالکل سفر نہ کریں۔ان تمام شرعی حدود کو مد نظر رکھ کر عورتیں مساجد میں اپنا دعوتی وتبلیغی پروگرام منعقد کرسکتی ہیں۔مساجد دین اسلام کا شعائر ہیں اور ان کامقصد انہیں آباد کرنا ہے۔اور مساجد کی آبادی نماز،روزہ،تلاوت،ذکر واذکار،قرآن وسنت کی تعلیم وتبلیغ اورعبادات سے ہی ممکن ہے جس طرح مسجد کو آباد کرنے کا مرد کوحق ہے،بالکل اسی طرح عورت کا بھی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم کتاب الصلاۃ باب خروج النساء الی المساجد(140۔442)
"جب عورتیں تم سے اجازت طلب کریں تو ان کو مساجد کے حصہ سے منع نہ کرو"
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مساجد میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔اور اس عموم میں تبلیغی واصلاحی اور اسلامی اجتماعات بھی شامل ہیں۔اسی طرح عورتوں کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا اور مردوں کے پیچھے آکر نماز پڑھنا اور عید گاہ جو مسجد کے حکم میں ہے وہاں پر عورتوں کو حاضر ہونے کی تاکید کرنا اور بعض بے سہارا خواتین کامسجد نبوی میں قیام کرناوغیرہ اُمور اس بات کے موئید ہیں کہ عورت کو بھی مسجد میں قیام کی اجازت ہے اور مسجد میں قیام کامقصد مسجد میں ذکر اللہ،عبادات اور وعظ ونصیحت ہے،لہذا عورتیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے مرد وزن کے اختلاط سے اجتناب کرتے ہوئے مسجد میں تبلیغی اجتماع دعوتی واصلاحی پروگرام منعقد کرسکتی ہیں۔اس میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب