سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) چار رکعت میں پہلے تشہد کے ساتھ درود شریف پڑھنا بارش کی صورت میں دونمازیں جمع کرنا

  • 20839
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 4488

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمبر1۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ جس نماز میں دو تشہد ہوں تو پہلے تشہد میں التحیات سے اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ تک پڑھنا چاہیے یا درود شریف ابراہیمی پڑھنا بھی ضروری ہے۔اگر پہلے تشہد میں درود شریف نہ پڑھا جائے تو کیا نماز نہیں ہوتی؟

اگردرود شریف پڑھنا  ضروری ہوتو دلائل اور نہ پڑھنے کی دلیل کیا ہے؟

2۔اگربارش ہورہی ہو(تھمنے) رکنے کا امکان نہیں یاگلی بازاروں میں سخت کیچڑ ہے۔یاکسی دوسرے علاقے کی سردی نے غلبہ کیا تو ان میں سے کسی ایک حالت میں نماز مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز جمع کرلینا کیساہے۔جب کہ ترمذی شریف میں حدیث موجود ہے۔کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلاخوف وبلامطر خطر نماز جمع کی ہے۔علاوہ ازیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر کے وقت سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو عصر کی طرف موخر کرتے اگر ظہر ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تب عصر کو ظہر کی طرف مقدم کرکے نماز پڑھ کر سفرشروع کرتے۔بینواتوجروا۔(سائل زبیر احمد  بھٹی۔جھبراں ضلع شیخو پورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے تشہد میں درود شریف پڑھا جائے یا نہیں؟اس کے بارے میں علماء کی دورائے ہیں۔علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ پہلے تشہد میں بھی درود شریف پڑھنا مشروع اور جائز ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے درود شریف  پڑھنے کا حکم دیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس حکم میں عموم ہے جو تشہد اول اور تشہد ثانی دونوں کو شامل ہے۔اس نے درود کے حکم کو تشہد ثانی ہی کے ساتھ خاص کرنا اور پہلے تشہد میں اس کے پڑھنے کو جائز نہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر بعض ائمہ کا مسلک یہی ہے۔

عصرحاضر کے نامور عالم ،محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہاہے کہ تشہد اول میں درودشریف کے پڑھنے کو مکروہ سمجھنا بلادلیل ہے (ملاحظہ ہو صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم )ص 146)

لیکن علماء کاایک  دوسرا گروہ ہے جس کی رائے میں مذکورہ بالا مسلک صحیح نہیں اور وہ درج ذیل حدیث سے استدلال کر تا ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مسند احمد میں مروی ہے اس روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اگروسط صلوٰۃ(یعنی تشہد اول) میں ہوتے تو تشہد سے فراغت کے بعد کھڑے ہوجاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے تو تشہد کے بعددعا مانگتے اور پھر سلام پھیرتے اصل عربی الفاظ یہ ہیں۔

"قال : ثم إنْ كان في وسطِ الصلاة ؛ نَهَضَ حينَ يفرُغُ من تَشَهُّدِهِ ، وإنْ كان في آخِرها دعا بعد تَشَهُّدِهِ بما شاء الله أَنْ يَدْعُوَ ، ثم يسلم"

(الفتح الربانی الترتیب ہند الامام احمد بن حنبل الشیبانی ج4۔ص2۔3)

علامہ ساعاتی(صاح الفتح الربانی) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

"وقد  احتج به المالكية ومن وافقهم في القيام الي الركعة الثالثة عقب التشهد الاول بدون ذكر الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم فيه"(حوالہ مذکور)

"اس حدیث سے مالکیہ اور ان کے ہم رائے دیگر ائمہ(احناف وغیرہ) نے یہ دلیل پکڑی ہے کہ پہلے تشہدمیں درود پڑھے بغیر ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے"

یہ حدیث سنداً صحیح ہے۔حافظ ہثیمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کے رواۃ کے بارے میں کہا ہے ۔رجالہ موثقون(اس کے راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ،ج2۔ص142)

نامور مصری محدث احمد شاکر مرحوم ن بھی اس حدیث کوسنداً صحیح قرار دیاہے(ملاحظہ ہو،مسند احمد،ج 76 ص148،178 بہ تحقیق احمد شاکر،

2۔حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

"ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان لا يزيد في الركعتين علي التشهد رسول الله صلي الله عليه وسلم"

دورکعتوں میں صرف تشہد پڑھتےتھے۔اس پر زیادتی نہیں کرتے تھے۔"

ہشیمی  رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"رواه ابو يعليٰ من رواية ابي الحويرث عن عائشه رضي الله عنها والظاهر انه خالد بن الحويرث وهو ثقة وبقية رجاله رجال الصحيح" (مجمع الزوائد،ج3،ص 142)

گویا اس روایت کے  راوی بھی ثقہ ہیں اور یوں یہ  روایت بھی صحیح ہے۔

3۔ایک اور روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جس میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پہلی دورکعتیں میں اتنا(مختصر) جلوس فرماتے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔(الفتح الربانی،ج4۔ص17) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے تشہد میں جلد ہی  اُٹھ جایا کرتے تھے،جس سے اسی امر کی تائید ہوتی ہے کہ پہلے تشہد میں آپ صرف تشہد ہی پڑھتے ہوں گے،اس کے ساتھ درودشریف نہیں پڑھتے ہوں گے۔

مذکورہ روایات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ پہلے تشہد میں صرف تشہد ہی پڑھنا چاہیے اس کے ساتھ درود شریف پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ آخری تشہد میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے۔ہاں اگر کوئی شخص بھول کر پہلے تشہد میں بھی درود شریف پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے نہ اسے سجدہ سہو کرنے کی ہی ضرورت ہے۔جیساکہ احناف کا مسلک ہے کہ ان کے نزدیک پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنے کی صورت میں سجدہ سہوکرنا ضروری ہے۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

2۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلاشبہ ایک مرتبہ بغیر خوف اور بارش کے نماز جمع کرکے پڑھتی تھی جس سے،

(نوٹ:اس کے بعد کا پی ڈی ایف صفحہ غائب ہے)

تحقیق وتنقید۔۔۔جناب خالد جاوید اختر سلفی مرجالوی ۔جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ

تشہد اول میں درُود شریف  پڑھنے کامسئلہ

الاعتصام شمارہ 37(15 ستمبر 1989ء) میں ایک سوال کے جواب میں عرض کیاگیا تھا کہ پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا ضروری نہیں ہے۔حرف آخری تشہد ہی میں اس کااہتمام ضروری ہے۔

راقم کے اس مضمون یا فتویٰ کے جواب میں متعدد اہل علم وتحقیق کی طرف سے جوابات موصول ہوئے ہیں  جس  میں بیان کردہ موقف سے اختلاف کیا گیا ہے۔یہ مضامین جس ترتیب سے موصول ہوئے حسب ذیل ہیں۔

1۔حافظ محمد ایوب خالد۔مدرس جامعہ محمدیہ توحیدآباد شیخوپورہ۔

2۔خالد جاوید اختر سلفی مرجالوی جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ

3۔مولانا ابومحمد عبدالستار الحماد جامعہ سلفیہ فیصل آباد

4۔پیرمحب اللہ شاہ راشدی سندھ

5۔عبداللہ عبدالرحمٰن  فیصل آباد

ان  میں اول الذکر پہلے دو مضمون تقریب یکساں دلائل پر مبنی ہیں۔تاہم دوسرا مضمون قدر سےمفصل ہے۔جس میں پہلے مضمون کے بھی سارے دلائل موجود ہیں اور مزید کچھ اضافہ ہے ۔اس لیے پہلے مضمون کی اشاعت غیر ضروری ہے کیونکہ دوسرے مضمون میں وہ سارا موادآجاتا ہے۔

تیسرے مضمون میں جو ہفت روزہ"اہلحدیث" لاہور میں چھپ گیا ہے،انہی دلائل کی تکرار کے ساتھ مزید نئی بات اس میں یہ عرض کی گئی ہے کہ اس مسئلے میں تشدد صحیح نہیں،دونوں مسلکوں پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

نمبر3۔مضمون کی اشاعت کے بعد اسکی اشاعت بھی باعث تکرار ہی ہوگی۔

چوتھا مضمون پیر محب اللہ شاہ صاحب حفظہ اللہ کا ہے جس میں کچھ مزید دلائل ہیں۔جس سے دوسرے موقف کو،جواول وآخر(دونوں تشہد میں) درُود پڑھنے پر مبنی ہے۔یقیناً تائید وتقویت ملتی ہے اس لیے اس کی  اشاعت بھی مفید ہے۔

پانچواں مضمون مولانا عبدالستار الحماد صاحب کے مضمون کے ایک حصے پر تنقید ہے حماد صاحب کامضمون چونکہ"الاعتصام" میں شائع ہی نہیں ہوا ہے اس لیے اس کی اشاعت بھی غیرضروری ہے۔

گویا آئندہ مضامین میں سے صرف دو مضمون ہم شائع کررہے ہیں ۔ایک خالد جاوید سلفی کا۔اوردوسرا حضرت پیر صاحب راشدی حفظہ اللہ کا ۔مذکورہ وضاحت سے مقصود یہ ہے کہ دوسرے مضمون کی عدم اشاعت کی وجہ صرف تکرار سے قارئین کو بچانا ہے ورنہ سارے دوست جنھوں نے یہ عملی کاوشیں کی،ہمارے نزدیک قابل احترام ہیں،اور ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے تحقیق مسئلہ کے لیے اپنا فرض اداکیا۔جزاھم اللہ احسن الجزاء۔

جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مختصراً عرض ہے کہ اگرچہ پہلے جو موقف پیش کیاگیا تھا ۔اس کے بھی ہمارے اکابر علماء قائل رہے ہیں،مثلاً امام ابن القیم (جلد الافہام) نواب صدیق حسن خان(الروضۃ الندیہ) امام شوکانی(نیل الاوطار) امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ (المحلیٰ) مولانا عبدالرحمان مبارک پوری(تحفۃ الاحوذی) اور مولانا عبیدالرحمان رحمانی حفظہ اللہ(مرعاۃ المفاتیح) اور دیگر حضرات۔تاہم یہ دوسرا موقف،جسے تنقیدی مضامین میں پیش کیا گیا ہے،جنھیں قارئین اب ملاحظہ فرمائیں گے دلائل کی رو سے زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔بالخصوص مسند ابی عوانہ کی روایت (جو سنن بیہقی اور نسائی میں بھی ہے) جس کا حوالہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی دیا ہے ایسی نص ہے جس سے مسئلے کی دو ٹوک وضاحت ہوجاتی ہے۔اگرچہ اس کا تعلق تہجد کی نفلی نماز سے ہے۔اور بعض علماء نے اسے نوافل کے تشہد اول میں ہی صلوٰۃ کے جوازپر استدلال کیا ہے۔تاہم اگر اسے فرائض کے لیے بھی عام کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔بالخصوص جب کہ عمومی دلائل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔

بہرحال اب بالترتیب یہ دونوں مضامین قارئین کرام ملاحظہ فرمالیں۔اس اشاعت میں مولانا مرجالوی صاحب کا مضمون شامل ہے۔آئندہ اشاعت میں ان شاء اللہ حضرت پیر صاحب دامت برکاتہم کا مضمون شائع ہوگا۔(ص۔ی)

"الاعتصام"(شمارہ 37) میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کا ایک مضمون ایک سائل کے جواب میں پڑھا جو کہ چار رکعت میں پہلے تشہد کے ساتھ درُود شریف پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں تھا۔حافظ صاحب موصوف نے یہ ثابت کیا ہے کہ پہلے تشہد میں درُود پڑھنے کی ضرورت نہیں لیکن حافظ صاحب کا یہ دعویٰ دلائل کی رو سے صحیح نہیں ۔بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ پہلے تشہد میں بھی درُود شریف پڑھنا چاہیے جسکے دلائل حسب ذیل ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب

"اللہ اور اس کے رسول کے فرشتے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر صلوٰۃ  بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود وسلام بھیجو۔"

اگرچہ آیت کریمہ کے الفاظ عام ہیں لیکن اس کا تعلق نماز کے ساتھ بھی ہے۔چنانچہ دارقطنی میں ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت منقول ہے آپ کہتے ہیں کہ:

"أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِي صَلاتِنَا"

(دارقطنی مع تعلیق الغنی جلد ص355)

"ایک آدمی  آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھے۔اُس آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہے لیکن جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کیسے بھیجیں؟"پھر آگے اس حدیث میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتادیا کہ درُود اس طرح پڑھو۔الخ

یہ روایت مسند احمد،صحیح مسلم،سنن نسائی،جامع ترمذی،ابوداود ،ابن خزیمہ ،ابن حبان،حاکم اور بیہقی میں مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  وحاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اسی حدیث کے تحت(جو کہ نسائی میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے)مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف  رحمۃ اللہ علیہ  حاشیہ نمبر5 کے تحت امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  کا نظریہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"بأن الآية لما نزلت وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - قد علمهم كيفية السلام عليه في التشهد، والتشهد داخل الصلاة، فسألوا عن كيفية الصلاة، فعلمهم، فدل على أن المراد بذلك  ايقاع الصلوٰة عليه في التشهد بعد الفراغ من التشهد الذي تقدم نعليمه لهم واما احتمال ان يكون خارج الصلوٰة فهو بعيد"

(نسائی ج اول،ص 151 برحاشیہ نمبر5)

کہ"آیت درود وسلام جب نازل ہوئی تو اس کے نزول سے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین )کو تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام پڑھنے کی کیفیت سکھا دی تھی۔اورتشہد نماز میں داخل ہے۔تو انہوں نے(اب آیت کے نزول کے بعد) درود پڑھنے کی کیفیت دریافت کی ۔تو اس سے اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ اس سے مراد ان کا اس  تشہد سے فارغ ہونے کے بعد جس کی تعلیم انہیں پہلے سے ملی تھی۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر تشہد میں درود  پڑھنا ہے اور یہ جو احتمال ہے کہ خارج نماز کے متعلق انہوں نے دریافت کیا ہوتو یہ بعید ہے۔"

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تشہد میں السلام عليك ايها النبی الخ تو پہلے ہی پڑھتے تھے اب جب کہ یہ آیت نازل ہوئی تو اس میں تھا کہ: صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔کہ سلام کے ساتھ درُود بھی بھیجو۔

تو حدیث بھی صاف آرہی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا کہ:

"فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِي صَلَاتِنَا "

کہ"نماز میں ہم سلام تو  پڑھتے ہیں اب ہمیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ بتادیجئے کہ ہم درُود کیسے پڑھیں؟

اگر ہم پہلے تشہد میں درُودشریف نہ پڑھیں،تو سَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سلام پڑھو) پر تو عمل ہوگا لیکن صَلُّوا (درود بھی پڑھو) پر عمل نہیں ہوگا۔[1]

شیخ الاسلام علامہ ناصر الدین البانی  رحمۃ اللہ علیہ  حفظہ اللہ نے اپنی کتاب "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم" میں اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ درُود پہلے تشہد میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   پڑھتے تھے اور دوسرے میں بھی۔اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُمت کے لیے بھی مشروع قراردی۔چنانچہ ابو عوانہ اورنسائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

" كان صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي على نفسه في التشهد الأول وغيره. وسَنَّ ذلك لأمته؛ حيث أمرهم بالصلاة عليه بعد السلام عليه " (صفۃ الصلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ص145۔146)

کہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پہلے تشہد میں بھی اپنے آپ پردرُود پڑھتے تھے اور دوسرے میں بھی اور اس کو اُمت کے لیے بھی شروع قرار دیا۔جہاں  انہیں آپ نے سلام کے بعد آپ پر درُود پڑھنے کا بھی حکم دیا ۔"

اب یہ مسئلہ تو شواہد ودلائل سے بالکل عیاں ہے کہ دونوں تشہد میں درُود پڑھا جائے اوردوسرے تشہد کے ساتھ درود کو خاص کرلینے کی کوئی دلیل نہیں۔حافظ صاحب موصوف نے اپنے مضمون میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ کمزور ہیں۔ہم یہاں ان دلائل کا ایک ایک کرکے جواب دیتے ہیں۔

سب سے پہلے دلیل جو حافظ صاحب موصوف نے دی ہے۔وہ الفتح الربانی بالترتیبس مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی  رحمۃ اللہ علیہ  سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے۔یہاں حافظ صاحب موصوف یہ دعویٰ کر گئے ہیں کہ اس حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اگر وسط صلوٰۃ میں ہوئے تو تشہد سے فراغت کے بعد کھڑے ہوجاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوئے تو تشہد کے بعد دعا مانگتے۔اور پھر سلام پھیرتے۔"

استشہاد کے لیے رقمطراز ہیں۔

"قال : ثم إنْ كان في وسطِ الصلاة ؛ نَهَضَ حينَ يفرُغُ من تَشَهُّدِهِ ، وإنْ كان في آخِرها دعا بعد تَشَهُّدِهِ بما شاء الله أَنْ يَدْعُوَ ، ثم يسلم"

(الفتح الربانی الترتیب ہند الامام احمد بن حنبل الشیبانی ج4۔ص2۔3)

اب حافظ صاحب موصوف جو صراحت کا دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فعل تھا اور استدلال۔ إنْ كان في وسطِ الصلاة الخ۔میں کان کی ھُوَ ضمیر سے کررہے ہیں۔گویا ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو قرار دیتے ہیں حالانکہ یہاں مرجع ضمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نہیں بلکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔

ہم تصریح کے لیے صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نقل کرتے ہیں جہاں راوی صراحت سے کہتاہے کہ یہ فعل عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کاتھا۔ملاحظہ ہو۔

" عن عبدالرحمان بن الاسود عن ابيه انا عبدالله بن مسعود رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم علمه التشهد في الصلاة قال كنا نحفظه عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه كما نحفظه حروف القرآن الواد والالف فاذا جلس علي وركه اليسري قال التحيات لله الي قوله عبده ورسوله ثم يدعو لنفسه ثم يسلم وينصرف "(صحیح ابن خزیمہ ص ج۔1ص 348) (باقی)

تحقیق وتنقید۔۔۔جناب خالد جاوید اختر سلفی مرجالوی ۔جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ

تشہد اول میں درُود شریف  پڑھنے کامسئلہ

قسط نمبر2۔(آخری قسط)

اب  دیکھئے عبدالرحمان بن اسود اپنے والد اسود سے روایت کرتے ہیں ۔اسود نے کہاکہ  ہمیں  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں نماز میں تشہد سکھایا ۔آگے اسود کہتے ہیں۔

"قال كنا نحفظه عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه كما نحفظه حروف القرآن الواد والالف فاذا جلس علي وركه اليسري قال التحيات لله "

کہ"ہم عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے تشہد اس طرح یاد کرتے تھے جس طرح ہم قرآن کے حروف یاد کرتے تھے جس طرح واو اور الف۔پس جب آپ اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے تو کہتے التحیات للہ۔"الخ۔

اب غور کریں اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ ہم ان سے تشہد اس طرح یاد کرتے تھے۔جس طرح قرآن یاد کرتے تھے اور پھر اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق ہی بتارہا ہے کہ جب وہ اپنی بائین  سرین پر بیٹھتے توکہتے التحیات للہ۔الخ

توحافظ صاحب موصوف نے جوحدیث الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  الشیبانی کی پیش کی ہے۔اس میں بھی عبدالرحمان بن اسود عن ابیہ عن ابن مسعود ہے۔وہاں بھی اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق بتارہے ہیں: "ثم إنْ كان في وسطِ الصلاة ؛ نَهَضَ"الخ۔کہ اگر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وسط صلوٰۃ یعنی پہلے تشہد میں ہوتے تو تشہد پڑھ کر ہی اُٹھ کھڑے ہوتے۔اور اگر نماز کے آخر یعنی دوسرے تشہد میں ہوتے تو تشہد کے ساتھ دعا بھی ملالیتے اور پھر سلام کہتے۔[2] دیا لیکن شروع سے جہاں اپنے موقف کا رد ہوتاہے وہ حصہ چھوڑدیا۔[3] یہاں حافظ صاحب  موصوف کو غلطی لگی ہے۔[4]

چنانچہ ہم اسی حدیث کو پیش کرتے ہیں جس کا حوالہ حافظ صاحب موصوف نے دیا ہے۔ملاحظہ ہو۔

" الأسود بن يزيد النخعي عن أبيه عن عبد الله بن مسعود قال :
علمني رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التشهد في وسط الصلاة وفي آخرها - فكنا نحفظ عن عبد الله حين أخبرنا أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علمه إياه ؛ "قال - :فكان يقول إذا جلس في وسط الصلاة وفي آخرها على وركه اليسرى :التحيات لله ... إلخ . ثم قال :ثم إن كان في وسط الصلاة ؛ نهض حين يفرغ من تشهده ، وإن كان في آخرها ؛دعا بعد تشهده بما شاء الله أن يدعو ، ثم يسلم "

(الفتح الربانی الترتیب ہند الامام احمد بن حنبل الشیبانی ج4۔ص2۔3)

اسود بن یزید نخعی کہہ رہے ہیں کہ فكنا نحفظ ہم یاد کرتے تھے۔عبداللہ سے جب اُس نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے یہ سکھایا ہے۔فکان یقول۔الخ۔اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ پڑھتے تھے جب وسط صلوٰۃ اور اس کے آخر میں بیٹھتے تھے۔الخ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ فكنا نحفظ اور فکان یقول"ان الفاظ کا قائل ایک ہے(یعنی اسود) اورحافظ صاحب موصوف نے تو اس عبارت کو حذف کردیا اور آخر سے ایک پیراحذف کرکے صراحتاً فعل رسول ثابت کررہے ہیں۔حالانکہ صراحتاً یہ فعل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ثابت ہورہا ہے۔

جب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فعل ہے تو پھر اب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے حجت رسول معظم ہیں۔ہمارے لیے اُسوہ حسنہ خود رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں:

"لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "

دوسری دلیل حافظ صاحب موصوف نے مسند ابی یعلیٰ سے عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   والی روایت  پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

"كان لا يزيد في الركعتين علي التشهد "

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (پہلی) دو رکعتوں میں صرف تشہد پڑھتے تھے اس سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔"

یہ روایت حافظ صاحب موصوف نے مجمع الزوائد ج2 ص142 کے  حوالہ سے درج کی ہے اور پھر حافظ ہثیمی کا فیصلہ بھی درج کیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں۔

"رواه ابو يعليٰ من رواية ابي الحويرث عن عائشه رضي الله عنها والظاهر انه خالد بن الحويرث وهو ثقة وبقية رجاله رجال الصحيح" (مجمع الزوائد،ج3،ص 142)

"ابویعلیٰ نے اس حدیث کو ابو الحویرث کی روایت سے روایت کیا ہے جو وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتے ہیں۔اور ظاہر بات یہ ہے کہ (ابوالحویرث نہیں) خالد بن حویرث ہے جو کہ ثقہ ہے اور باقی اس سند کے راوی صحیح ہیں۔مگر یہ روایت ضعیف ہے۔چنانچہ میزان الاعتدال میں ہے:

"ابو الحويرث عن عائشة لا يعرف فان كان الأول فلم يدرك عائشة رضي الله عنها"(ميزان الاعتدال جلد 3 ص 355)

کہ"ابوالحویرث جو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتاہے وہ مجہول ہے اور اگر پہلا(یعنی عبدالرحمان بن معاویہ) ابو الحویرث ہوتو اس نے عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو نہیں پایا۔"

اب ابو الحویرث کی روایت تو دونوں صورتوں میں قبول نہیں ہوسکتی ۔اس لیے کہ جو ابوالحویرث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتا ہے وہ تو ہے ہی مجہول۔اور مجہول کی روایت قبول نہیں۔بصورت دیگر اگر یہ ابوالحویرث دوسرا ہے(یعنی عبدالرحمان بن معاویہ) تو اس نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو نہیں پایا۔لہذا اس صورت میں روایت منقطع ہوجائے گی۔

اب ابو الحویرث کی تو بات ہی ختم کہ ابوالحویرث جو بھی عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرے وہ روایت قبول نہیں۔رہی بات خالد بن حویرث کی تو وہ بھی مجہول ہے۔

(کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رازی)ج اقسم 3 ص324) میں ہے عثمان بن سعید دارمی نے کہا کہ میں نے یحییٰ ابن معین سے خالد بن حویرث کی بابت پوچھا تو اس نے کہا کہ میں اسے نہیں پہچانتا۔عبارت یہ ہے۔

" قال سألت يحيى بن معين عن خالد بن الحويرث فقال لا أعرفه"

(حوالہ مذكور)

اورتہذیب التہذیب میں ہے کہ :

"قال عثمان بن سعيد الدارمي سالت يحيٰ ابن معين عنه فقال لااعرفه وقال ابن عدي اذا كان يحيٰ لا يعرفه فلا يكون له شهرة ولا يعرف"

"عثمان بن سعید دارمی نے کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین سے خالد بن حویرث کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ میں اسے نہیں جانتا اور ابن عدی نے کہا کہ جب یحییٰ اسے نہیں پہچانتا تو یہ مشہور نہیں بلکہ مجہول ہوگا۔"

جب مسند ابی یعلیٰ کی اس روایت میں نہ تو ابو الحویرث کا اعتبار ہے اور نہ ہی خالد بن حویرث کا تو پھر اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں۔

رہی حافظ صاحب موصوف کی تیسری دلیل جو وہ الفتح الربانی(ج 4 ص 17) لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل شیبانی سے پیش کرکے استدلال کرتے ہیں کہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں اتنا(مختصر) جلوس فرماتے۔گویا کہ آپ  گرم بستر پر بیٹھے ہیں۔"

یہ روایت منقطع ہے اس کی عبارت یوں ہے۔

"عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ قُلْتُ: حَتَّى يَقُومَ ؟ قَالَ:حَتَّى يَقُومَ "

(مسند احمد ج5 ص 239 بتحقیق احمد محمد شاکر) حافظ صاحب موصوف نے یہ روایت پیش کی ہے اور اس میں ابو عبیدہ راوی کا اپنے والد سے سماع ثابت  نہیں تو حدیث بوجہ انقطاع ضعیف ہے۔احمد محمد شاکر نے کہا۔اسنادہ ضعیف لانقطاعہ(حوالہ مذکور) حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی یہی کہا ہے کہ ابو عبیدہ کا اپنے والد سے سماع ثاب نہیں ۔چنانچہ لکھتے ہیں۔

 "عامر بن عبدالله بن مسعود الهذلي ابوعبيدة الكوفي ويقال اسمه كنيته روي عن ابيه ولم يسمع منه "

(تہذیب التہذیب ج5 ص75) عامر بن عبداللہ بن مسعود ہذلی ابو عبیدۃ کوفی ہے اور کہاجاتا ہے کہ اس کا نام اس کی کنیت ہی ہے۔اس نے اپنے والد سے روایت کی لیکن اس سے سماع ثابت نہیں۔"امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  جامع الترمذی میں لکھتے ہیں۔

"وأبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه ولا يعرف اسمه "

"کہ ابوعبیدۃ نے اپنے والد سے نہیں سُنا اور اس کا نام معلوم نہیں (جامع الترمذی جلد 1 ص11)

حافظ ابن حجرعسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ "التلخیص الجیر"میں لکھتے ہیں۔

"حديث: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في الركعتين الأوليين كأنه على الرضف الشافعي وأحمد والأربعة والحاكم من رواية أبي عبيدة بن عبد الله بن مسعود عن أبيه وهو منقطع لأن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه قال: شعبة عن عمرو بن مرة سألت أبا عبيدة هل تذكر من عبد الله شيئا؟ قال: لا, رواه مسلم وغيره
وروى[5] ابن أبي شيبة من طريق تميم بن سلمة"

(التلخیص الجیر ج ص 263)

حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پہلی دو رکعتوں میں اسی طرح ہوتے تھے جیسے کہ گرم پتھر پر ہوں،شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  احمد،اربعہ(ابوداود۔نسائی۔ترمذی۔ابن ماجہ) اور حاکم نے ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے جو وہ اپنے باپ سے بیان کرتا ہے نقل کیا ہے۔اور یہ روایت منقطع ہے اسلیے کہ ابوعبیدہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کااپنے والد سے سماع نہیں ہے۔شبعہ نے عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ہے۔اس نے کہا کہ میں نے ابوعبیدہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا کہ کیا تو عبداللہ سے کچھ ذکرکرتا ہے تو اس نے کہا نہیں،اس کو مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔اور ابن ابی شیبہ نے تمیم بن سلمہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔"

اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ تیسری دلیل بھی کمزور ہے۔اور روایت منقطع یعنی ضعیف ہے۔

جب حافظ صاحب  موصوف کے تینوں دلائل درست نہیں تو پھر مذکورہ تفصیل کے بعدیہ بات روزوروشن کی طرح واضح  ہوکرسامنے آتی ہے۔ اور درُود شریف (؟) دونوں تشہد میں پڑھنا چاہیے۔اور پہلے اور دوسرے کی تفریق کرنا صحیح نہیں۔حافظ  صاحب موصوف نے فرمایا ہے کہ آخری تشہد میں موجوددرُود شریف پڑھناضروری ہے اس آخری تشہد والی تخصیص کی دلیل کیاہے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔

تحقیق وتنقید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیر محب اللہ شاہ الراشدی حفظہ اللہ سندھ

التحقیق المستحلیٰ فی ثبوت الصلوٰۃ علی النبیؐ فی القعدۃ الاُولیٰ

تشہد اول میں بھی درُود پڑھنے کاثبوت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:۔

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ حضرت الفاضلی محترم القام حبی فی اللہ واخی فی السلام!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!اُمید ہے آپ کا مزاج عالی مع الخیر ہوگا۔اما بعد:۔

15ستمبر کے"الاعتصام"میں آپ محترم کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم نے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے۔کہ قعدہ اولیٰ میں صحیح بات ہے۔کہ اس میں تشہد کے ساتھ صلوٰۃ نہ پڑھی جائے۔افسوس کے اس مسئلہ میں راقم الحروف آں محترم کے ساتھ اتفاق نہیں کرسکا۔عصر حاضر کے صرف علامہ البانی حفظہ اللہ ہی پہلے قعدہ میں صلوٰۃ پڑھنے کے قائل نہیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مولانا عبدالقادر حصاروی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے بھی ایک مضمون شائع کرایا تھا۔اُس میں بھی انہوں نے دلائل سے ثابت کیا تھا کہ پہلے قعدہ میں بھی تشہد کے ساتھ صلوٰۃ پڑھنی چاہیے۔اور صحیح بات بھی ان شاء اللہ یہی ہے۔

آں محترم نے اپنے موقف کی دلیل میں ایک  حدیث تو مسند ابی یعلیٰ کی ذکر فرمائی ہے اور علامہ ہثیمی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ یہ روایت ابوالحویرث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتا ہے اور وہ ثقہ ہے ۔مسند ابی یعلیٰ کامکمل مخطوطہ ہمارے پاس موجود ہے۔اس میں یہ حدیث بھی( ج2 ص46 میں) موجود ہے لیکن حضرت صدیقہ ام المومنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے راوی ابوالحویرث نہیں،ابوالجوزاء ہے۔اور ائمہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ابوالجوزاء کا چند صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  جن میں سیدتنا واُمنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بھی ہیں۔سے سماع ثابت نہیں۔دیکھئے تہذیب التہذہب وغیرہ۔لہذا یہ روایت تو انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دوسری  روایت جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے  اُس کی سند حسن وجید ہے۔لیکن اس سے مسئلہ زیر بحث پر استدلال راقم الحروف کے نزدیک صحیح نہیں۔اس لیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سابقین میں سے ہیں اور قدیم الاسلام ہیں۔لہذا جو واقعہ وہ اس حدیث میں بیان فرمارہے ہیں وہ پہلے کا تھا اور پہلے قعدہ میں تشہد کے ساتھ صلوٰۃ پڑھنا بعد کا ارشاد ہے۔اس لیے پہلاحکم بعد میں آنے والے حکم کا رافع نہیں ہوسکتا۔

اب آپ ذیل کی حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔یہ حدیثیں مسند احمد سنن کبریٰ بیہقی وغیرہا میں اسانید جیاد سے مروی ہیں ۔اس کی اسانید مسند وغیرہ میں دیکھی جائیں۔

1۔ "عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : (( أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِي صَلاتِنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ ؟ قَالَ : فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ يَسْأَلْهُ ، فَقَالَ : إِذَا أَنْتُمْ صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَقُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "

اس حدیث میں جو سائل ہے وہ بشر بن سعد ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے اور اس حدیث میں واضح ہے کہ صلوٰۃ کے متعلق سوال نماز میں تشہد کے وقت پڑھنے کے بارے میں تھا اور "سلام"جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے پہلے جان لیا تھا وہ وہی ہے جو تشہد میں پڑھا جاتا ہے۔اور اس حدیث سے معلوم ہواکہ سوال مدینہ منورہ میں آنے کے بعد بھی کافی عرصہ بعد ہواتھا۔اس کی وضاحت مزید دوسری حدیث میں آرہی ہے۔

2۔یہ حدیث بھی حضرت ابی مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔اورجید سند سے امام احمد کی مسند میں موجود ہے۔

"عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ : (( أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ : أَمَرَنَا اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَالسَّلامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ"

اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کایہ سوال اللہ تعالیٰ کے فرمان:

﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورةالاحزاب

كے نزول کے بعد ہواتھا اور یہ آیت سورہ احزاب کی ہے جو سن 5 ہجری میں نازل ہوئی تھی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر صلوٰۃ وسلام  پڑھنا چاہیے۔اور یہ حکم بعدکا ہے۔تشہد کا حکم اس سے کافی عرصہ پہلے ہوچکا تھا ۔اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے اس تشہد کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ سلام تو ہم پہلے معلوم کرچکے ہیں۔یعنی تشہد میں اور اس دوسری حدیث میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تکمیل میں صلوٰۃ تو سکھلائی۔لیکن سلام کے متعلق اسی تشہد والے سلام کی طرف" وَالسَّلام كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ " سے اشارہ فرمادیا۔اس سے بالکل واضح ہوگیا۔کہ تشہد کا  حکم کافی عرصہ پیشتر ہوچکا تھا۔اور اس وجہ سے اس وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  صرف اسی پر اکتفا فرماتے تھے ۔لیکن جب سورہ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی دریافت پر آپ نے صلوٰۃ بھی بتادی۔اور یہ نماز ہی میں پڑھنے کے متعلق سوال تھا۔جیسا کہ پہلی حدیث سے واضح ہے۔

حضرت کعب بن عجرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی مسند احمد اور سنن کبریٰ للبیہقی میں اس کے موافق حدیث صحیح سند سے موجود ہے۔لہذاحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کے لیے استدلال میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

علاوہ ازیں ان دونوں حدیثوں کو اس طرح بھی جمع کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث میں جو صرف  تشہد کا ذکر ہے۔تو اس سے مراد تشہد مع الصلوٰۃ ہے۔اور عربی زبان میں چند اشیاء کے مجموعہ کی طرف ایک اہم جزو سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔مثلا! مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ۔الخ

میں ذکر تو قیام ہی کا ہے۔لیکن مراد پُوری نماز ہے اسی طرح اور بھی بہت سے امثلہ موجود ہیں۔اس کی وضاحت اس طرح سمجھتے کہ اللہ کا حکم تو صلوٰۃ وسلام دونوں کا ہےاور سلام صرف تشہد میں ہی مذکور ہے۔لہذا صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل صرف صلوٰۃ کے پڑھنے سے ہی ہوسکتی ہے۔لہذا جب نماز میں مُصلیٰ قعدہ کرے گا تو اللہ کے ارشاد کی تکمیل میں یہ دونوں پڑھے گا۔گویا تشہد جس میں سلام ہے،اور صلوٰۃ آپس میں لازم ملزوم ہیں۔اور صرف تشہد کے ذکر سے جو کہ اہم جُزو ہے،کیوں کہ اس میں سلام کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔اللہ کی ثناء وتعظیم ،شہادتین وغیرہ تو اس کے ذکر سے دوسرے جُز(یعنی صلوٰۃ کی جانب بھی اشارہ ہوگیا۔اس طرح حضرت ا بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے قعدے(وسط صلوٰۃ) میں اگر ہوتے تو  صرف تشہد یعنی مع الصلاۃ(کیونکہ اللہ کے ارشاد میں دو چیزیں ہیں اورصرف تشہد میں ایک ہی چیز مذکور ہے)پر اکتفا فرماتے۔اس میں کوئی خرابی نہیں،یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم ہیں۔ایک کے ذکر سے دوسرے کا ذکر ہوہی جائے گا۔باقی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں کہ:

"وإنْ كان في آخِرها دعا بعد تَشَهُّدِهِ بما شاء الله أَنْ يَدْعُوَ"

اس كو تشہد وصلوٰۃ کے علاوہ اور جو ادعیہ واردہ ہیں۔مثلاً:

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ"
"اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا"

ان پر محمول کیاجائے۔ان میں کوئی قباحت نہیں،بہرصورت اس مسئلے میں مجھے ان ائمہ کرام (امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ رحمہم اللہ) کا موقف صحیح نظر آتا ہے جو پہلے قعدہ میں بھی صلوٰۃ کےپڑھنے کو مشروع جانتے ہیں۔واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

ملحوظہ نمبر1

مزید برآں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں جو"وسط الصلوٰۃ"کے الفاظ ہیں ،اُن سے مراد اگر نماز کا ٹھیک ٹھیک بیچ مراد ہے تو یہ مغرب کی نماز سے منقوض ہے کیونکہ اس صورت میں مغرب کی نماز میں تشہد کے ساتھ صلوٰۃ  پڑھنی جائز ہوگی کیونکہ اس میں پہلا قعدہ ٹھیک ٹھیک بیچ میں نہیں ہے اور اگروسط سے مراد آخری قعدہ سے پہلے کا قعدہ ہے۔خواہ ٹھیک وسط  وبیچ میں ہو۔جس طرح چار رکعت نماز میں۔یا ٹھیک بیچ میں نہ بھی ہوتو پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے نماز کے وسط میں(یعنی دوسرے معنی کے لحاظ سے)ت تشہد کے ساتھ صلوٰۃ پڑھنی ثابت ہے۔حضرت سعد بن ہشام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا    فرماتی ہیں(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے قیام اللیل کا ذکر کرتے ہوئے)

"قَالَتْ : " كُنَّا نَعُدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَتَى شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لا يَجْلِسُ فِيهَا إِلا فِي الثَّامِنَةِ ، فَيَذْكُرُ اللَّهَ ، وَيَحْمَدُهُ ، وَيَدْعُوهُ ...

(سنن الکبریٰ للامام البیہقی :ج3۔ص،50) پھر اسی صفحہ پر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں"رواه مسلم في الصحيح عن ابي بكر بن ابي شيبة ص12 اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔رواہ سب کے سب ثقات ہیں اور سند ہیں ابن ابی عروبہ  اور قتادہ  رحمۃ اللہ علیہ   دونوں نے"ثنا"کہہ کر سماع کی تصریح بھی کردی ہے۔لہذا تدلیس کاشبہ بھی نہ رہا۔دیکھئے(سنن کبریٰ :ج 3ص 499) اور یہی حدیث بعینہ صحیح ابی عوانہ میں بھی موجود ہے۔[6]اس صحیح حدیث سے بالوضاعت معلوم ہوگیا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے وسط الصلوٰۃ میں اخیر ہی قعدہ سے پہلے قعدہ میں صلوٰۃ پڑھی اور مسئلہ مزیدمبرہن ہوگیا۔فاللہ الحمد ولہ المنۃ ولہ الفضل ولد الثناء الحسن۔

اس روایت میں پہلے قعدہ میں جو"فیدعوربہ"وارد ہے اس سے مراد وہی ہے جو نویں رکعت میں" ثم يحمده ربه" کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی تشہد(التحیات) مقصد یہ کہ قعد کے درمیانی اور اخیر ہی دونوں قعدوں میں صلوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔

ملحوظہ نمبر2۔مسند ابو یعلیٰ کی روایت کی مزید سندی تحقیق

اگر بالغرض حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے راوی ابو الجوزاء نہیں بلکہ ابو الحویرث ہو۔جیسا آں محترم نے حافظ ہشیمی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ ابوالحویرث کون ہے؟حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  التقریب میں"کُنیٰ" کے ابواب میں(؟) مہملہ کی فصل میں لکھتے ہیں۔"

"ابوالحويرث عن عائشة ان لم يكن الذي قبله والا فجهول من الثالثة"

اور  اس سے قبل جو"ابوالحویرث" ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں:

"بالتصغير الزرقي اسمه عبدالرحمان بن معاوية"

اب عبدالرحمان بن معاویہ کا ترجمہ نکالتے ہیں تو ان کاترجمہ اس طرح ملتاہے۔

"عبدالرحمٰن بن معاوية بن الحويرث بالتصغير الانصاري البزرقي ابوالحويرث المدني المشهور ربكنيته صدق سئي الحفظ رمي بالارجاء من السادسة"

اب آپ ان تراجم پر غور فرماویں کہ حضرت صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے راوی ابوالحویرث عبدالرحمان بن معاویہ بن الحویرث ہے تو وہ سئی الحفظ ہونے کے علاوہ طبقہ سادسہ ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے تقریب کی ابتداء میں یہ تصریح فرمادی ہے کہ طبقہ سادسہ کے روات کا کسی صحابی سے  سماع ثابت نہیں اور حالت یہ ہے کہ حضرت سیدہ اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جیسے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے تو طبقہ خامسہ ورابعہ کا بھی سماع نہیں بلکہ طبقہ ثالثہ یا ثانیہ کاہوتو ان سے سماع ہوسکتا ہے۔لہذا جوراوی طبقہ ثالثہ سے ہی نہیں،تین طبقہ نیچے کاہوا۔اس کا  حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سماع کیسے ثابت ہوسکتا ہے۔لہذا اس وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف ہوئی کیونکہ ایک تو اس میں راوی سئ الحفظ ہے اور دوسری وجہ سند میں مابین السیدہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور ابو الحویرث کے انقطاع ہے۔لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہوئی اگر یہ ابوالحویرث عبدالرحمان بن معاویہ ہیں تو تو وہ مجہول ہے۔جیسا کہ حافظ صاحب نے فرمایا:(وقد مرت عبارته) اور جہالت بھی ائمہ حدیث اور محققین کے نزدیک جرح شدیدہے۔لہذا اس صورت میں بھی یہ روایت  ضعیف ہے۔واللہ اعلم۔


[1] ۔فاضل مضمون نگار نے صرف امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کااستدلال ذکر کیا ہے  جب کہ دوسرے ائمہ کے نزدیک مذکورہ  آیت وحدیث سے مسئلہ زیربحث کا اثبات نہین ہوتا ۔جیسا کہ التعلیقات السلفیہ کے اسی حاشیے کی پہلی عبارت یہ ہے ۔

"وقد احتج بهذه الزيادة جماعة من الشافعية کا ابن خزيمة والبيهقي لايجاب الصلوٰة علي النبي صلي الله عليه وسلم في التشهد بعد التشهدوقبل السلام ولادلالة فيه علي كون ذلك في التشهد "شافعیہ کی ایک جماعت (جیسے ابن خذیمہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  ہیں)نے اس زیادتی(جوبعض روایات میں ہے) سے تشہد کے بعد سلام سے قبل وجوب صلوٰۃ پر استدلال کیا ہےحالانکہ یہ تشہد میں ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔"ا س سے یہ بات تو کم از کم واضح ہوجاتی ہے۔کہ تعاقب نگاہ کا پیش کردہ موقف ائمہ محدثین کا متفقہ مسلک  جس نے بعض شافعی ائمہ کا یہ  خیال ہے جبکہ دوسرے ائمہ محدثین اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔یہ بات بھی یاد رہے کہ جس :"زیادۃ"پراستدلال ہے وہ محمد بن اسحاق کی زیادت ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے قابل قبول قرار دیا ہے تاہم اس سے اس زیادتی ے بارے میں بھی اختلاف کا علم تو ہوتا ہے۔علاوہ ازیں یہ زیادتی بھی قاطع نہیں نزاع نہیں کیونکہ اس میں مطلق نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔تشہد اول وثانی کی اس میں وضاحت نہیں اس لیے اگر اسے تشہد ثانی پرمحمول کرلیا جائے تب بھی اس پر عمل ہوجاتا ہے۔(ص۔ی)

[2] ۔تعاقب نگار کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ کان کا مرجع عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہے۔بنابریں یہ روایت موقوف ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ کان کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر ائمہ  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اور اسی مرجع کی  بنیاد پر  اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ  پہلے تشہد میں درُود پڑھنا ضروری نہیں۔علاوہ ازیں یہ روایت صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  میں 350 پر بھی آئی ہے۔وہاں امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث پر جو باب باندھاہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کو سمجھا ہے۔امام ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے باب قائم کیا ہے۔باب الاقتصاد فی الجملۃ الاولیٰ علی التشھد وترک الدعا ء بعد التشھد الاول۔کہ"پہلے جلسے(نشست) میں صرف تشہد پڑھا جائے اور اس میں تشہد کے بعد دعائیں نہ  پڑھی جائیں۔"اگر یہ صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فعل ہوتا تو امام صاحب اس حدیث کے تحت یہ بات قائم نہ فرماتے۔(ص۔ی)

[3] ۔راقم علوم دین کا طالب علم ہے اس کا وہی موقف ہے جو دلائل صحیحہ وقویہ سے ثابت ہو۔اپنا کوئی موقف نہیں اس لیے یہ بدگمانی صحیح  نہیں کہ راقم نے اپنے موقف کے اثبات کے لیے ایسا کیا ہے بلکہ اس سے اصل مقصود صرف اختصار تھا۔(ص۔ی)

[4] ۔یہ کہنا صحیح ہے راقم نے کان اور نھض کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کو سمجھا تھا۔اور غالباً اُن ائمہ نے بھی یہی سمجھا ہے جنھوں نے اس سے پہلے تشہد میں درُود کے عدم وجوب پر استدلال کیا ہے۔تاہم راقم کو اپنی اس رائے پر اصرار نہیں ہے۔ممکن ہے یہ غلط ہی ہو جیسا کہ تعاقب نگار نے لکھا ہے۔(ص۔ی)

[5] ۔روی ابن ابی شیبہ الخ کا تعلق اُس اگلے اثر سے ہے جو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے غالباً اس منقطع روایت کے انجبارکے لیے  ذکر کیا ہے  جس میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پہلی دورکعتوں میں(اتنا مختصر بیٹھتے) گویا آپ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں اور اس کی سند کی بابت کہاہے کہ صحیح ہے نیزیہ بھی کہا ہے کہ حضرت ا بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی اسی طرح منقول ہے۔صاحب تحفۃ الاحوذی مولانا عبدالرحمان مبارک پوری نے بھی یہ تلخیص الجیر کے حوالے سے اور عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مسند احمد والی روایت نقل کرکے اپنا رجحان یہی ظاہر کیاہے کہ تشہد اول  اور تشہد ثانی کے مقابلے میں مختصر ہونا چاہیے(ج 1ص291) اسی طرح صاحب تنقیح الرواۃ نے انقطاع کے باوجود اس روایت کو یہ کہہ کر کہ ابوعبیدہ کا سماع اگرچہ اپنے باپ سے ثابت نہیں لیکن معلوم  ہوتا ہے کہ انہوں نے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے سن کر یہ روایت کی ہے کیونکہ ابوعبیدہ وہ راوی ہے جس کی حدیثوں سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وامام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی احتجاج کیا ہے ۔"اسے قابل قبول قراردیاہے۔(تنقیح الرواۃ۔ج1۔ص 372)

محدث شہیر مولانا عبیداللہ رحمانی حفظہ اللہ نے بھی اس روایت کو قابل قبول قراردیا ہے  چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

"انما حسنه الترمذي مع انقطاعه الشواهده"

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے انقطاع کے باوجود اسے اس کے شواہد کی وجہ سے حسن قراردیا ہے"پھر مذکورہ شواہد ذکر کرکے آخر میں لکھا ہے۔فهذه الروايات شواهد لحديث الباب حديث ابن مسعود  اور  اس حدیث باب سے انہوں نے مسئلہ یہی سمجھا ہے کہ پہلے تشہد میں صرف تشہد ہی پڑھا جائے اس پر اضافہ نہ کیا جائے۔

[6] ۔سنن نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔ج1 ص 302۔مع التعلیقات السلفیہ (ص۔ی)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الصلاة۔صفحہ نمبر 178

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ