نماز باجماعت کے دوران بچوں کو اگلی صف سے پچھلی صفوں میں بھیج دیاجاتا ہے۔میرے بچے اس سلوک کیوجہ سے مسجد میں جانا چھوڑ گئے ہیں۔کیا شریعت میں ایساکرنا ضروری ہے؟(ایک بہن،پشاور)
نماز میں صف بندی کاصحیح طریق کار یہ ہے کہ امام کے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے ہوں پھر جوان کے قریب ہوں پھر جوان کے قریب۔اس طرح افراد کا لحاظ کرتے ہوئے کیونکہ مردوں کو امام کے قریب کھڑا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ امام کو بھولنے کی صورت میں لقمہ دے سکیں،نماز کی کیفیت یاد رکھ سکیں،امام کی نماز ٹوٹنے کی صورت میں قائم مقام بن سکیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا امر فرماتے تھے کہ میرے قریب بالغ وعقلمند ہوا کریں جیساکہ ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابوداود (674)ابن ماجہ(976)مسلم 4/154مع نووی ابوعوانہ 2/41،42 نسائی 2/87 ،90 داری 1/233 حمیدی (456) مسند طیالسی(612) عبدالرزاق 2/45 مسند احمد 4/122 ابن خزیمہ 3/20،21 ا بن حبان(2163)طبرانی کبیر 17/216 ،217 طبرانی اوسط(1727)بیہقی 3/97)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ جو بالغ اور عقلمند ہیں میرے قریب رہیں۔پھر جو ان سے قریب ہیں پھر جوان سے قریب ہیں۔"
یہی حدیث ،مسلم،ابوداود اورابوعوانہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
"انما امر صلي الله عليه وسلم ان يليه ذووالاحلام والنهي ليعقدوا عنه صلاته ولكي يخلفوه في الامامة حدث به في صلاته "(معالم السنن 1/437)
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالغ اور عقلمند افراد کو اپنے قریب ہونے کا حکم اس لیے دیاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سیکھیں تاکہ امامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بن سکیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں حدث واقع ہوجائے۔"
اگر ایک مرد اور بچے کئی ہوں تو مرد نماز پڑھائے اوربچے اس کی پیچھے کھڑے ہوجائیں جیسا کہ حدیث میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"ان کی جدہ ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرکے دعوت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا پھر فرمایا۔کھڑے ہوجاؤ ،تمھیں نماز پڑھاؤں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اُٹھا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہوچکی تھی۔اس پر میری نانی نے پانی چھڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ۔میں اور ایک لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیردیا۔"
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:
"میں ایک گدھی پر سوار ہوکرآیا۔میں ان دنوں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں دیوار کے بغیر نماز پڑھارہے تھے میں (اگلی) صف کے کچھ حصے سے گزرا اور گدھی کو میں نے چرنے کے لیے چھوڑدیا اور میں صف میں داخل ہوگیا مجھ پر کسی نے اس بات پر انکار نہیں کیا۔
بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ مردوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔
امام سبکی نے کہا،بچہ جب اکیلا ہوتو مردوں کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔اگربچے دو یا زیادہ ہوں تو الگ صف بنالیں۔(نیل الاوطار 3/208)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ امام کے قریب تو بالغ عقلمند افراد کو کھڑا ہونا چاہیے اور دیگر مقامات سے بچوں کو صفوں سے نکالنا نہیں چاہیے کیونکہ بچوں کو صفوں سے اگر نکال دیاجائے تو ان کی تربیت نہیں ہوسکے گی۔اگر وہ صف میں آکرکھڑے ہوں گے تو نماز کا طریق کار سیکھیں گے لیکن اگر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جائے تو ان کی تربیت نہیں ہوگی بلکہ اُلٹا اثر قبول کرسکتے ہیں جیساکہ سائلہ نے ذکر کیا ہے لہذا ہمیں اس بات کاضرور لحاظ رکھنا چاہیے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب