سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) مسجد میں سُترہ رکھنا

  • 20836
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 3810

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے سُترے کا خیال رکھنا چاہیے یا کہ نہیں؟یعنی مسجد میں سُترہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟مسجد وصحرا میں نماز ادا کرتے ہوئے سُترے کافرق رکھنا کیساہے ؟قرآن وسنت کی روسے واضح کریں۔(شیخ عبدالطیف ،گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب آدمی نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اسے مختلف وساوس میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے حتیٰ کہ بسا اوقات اس قدر نمازی کی نماز کے دوران حائل ہوتا ہے۔کہ اسے بھول جاتا ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے ۔اس شیطانی حملہ سے بچنے کے لیے  شریعت اسلامیہ نے جہاں کئی ایک اعمال صالحہ بتائے ہیں،وہاں اس بات کی بھی تاکید فرمائی ہے کہ نمازی کو اپنے سامنے کوئی ایسی چیز رکھنی چاہیے جو اس کے لیےسُترے کا کام دے یا دیوار وستون کے پیچھے ہوکر نماز ادا کرے۔کیونکہ اگر سُترہ نہ رکھا جائے تو شیطان نماز خراب کرتا ہے اور نمازی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتاہے ۔اگر سُترہ سامنے ہوتو شیطان  اس کی نماز کو نہیں توڑ سکتا۔علاوہ ازیں اگر کوئی آدمی اس کے آگے سے گزرنا چاہیے تو وہ سُترے کے پیچھے سے گزرسکتا ہے اور اگر کوئی شخص نمازی اور سُترے کے درمیان سے گزرتا ہے یا سُترے کی شرعی حد کےاندر سے گزرتا ہے تو وہ گناہگار ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَوْ يَعْلَمُ المَارُّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ"(بخاری مع فتح الباری 1/584)

"نمازی کے  آگے سے  گزرنے والاآدمی اگر جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے تو وہ چالیس(سال) تک ٹھہر جائے تو یہ اس کے لیے اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے۔"

سُترے کی شرعی  حد تین ہاتھ ہے۔یعنی نمازی اورسُترے کے درمیان تین ہاتھ کافاصلہ ہونا چاہیے یا اس کے سجدے والی جگہ اور سُترہ کے درمیان بکری کے گزرنے کی مقدار کا فاصلہ ہو۔اس سے زیادہ سُترے سے دور نہیں ہوناچاہیے۔

سترے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کئی ایک احادیث ہیں جن میں اس کی اہمیت بتلائی گئی ہے ۔جیساکہ:

1۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا تُصَلِّ إِلا إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلا تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ "

"صحیح ابن خزیمہ 2/10(800)2/17(820) باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ)

"سُترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہ دو۔

اگر وہ (گزرنے والا)  انکار کردے تو اس سے لڑائی کرو یقیناً اس کے ساتھ شیطان ہے۔"

2۔ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا ، لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ"

(صحیح ابن خزیمہ 2/10(803) ابوداود(695) نسائی 2/62 مسند احمد 4/2 الاوسط لابن المنذر 5/86 صحیح ابن حبان(409) مستدرک حاکم 1/252،252 امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کی موافقت کی ہے)

"جب بھی تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ سُترے کی طرف نماز  ادا کرے اور اس کے قریب ہو شیطان اس پر اس کی نماز کو منقطع نہیں کرے گا۔"

3۔سہل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

" إذا صلى أحدكم فليستتر وليقترب من السترة فإن الشيطان يمر بين يديه " (شرح السنۃ 2/447(537)

"جب بھی تم میں سے کوئی آدمی نماز اداکرے تو وہ سُترے رکھے اور سُترہ کے قریب کھڑا ہو اس لیے کہ شیطان اس کے سامنے سے گزرتا ہے۔"

4۔طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ يَمُرُّ وَرَاءَ ذَلِكَ"

(صحیح مسلم (499) ترمذی(335) شرح السنہ 2/449 (539) ابن خزیمہ (805) اور الاوسط لابن المنذر 5/87(2431)

"جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کی مانند رکھ لے تو نماز پڑھے۔اس(لکڑی) کے پیچھے سے جو گزرے اس کی پرواہ نہ کرے۔"

مندرجہ بالااحادیث سے بالصراحت یہ معلوم ہواکہ نمازی کو سُترہ کے بغیر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔یہ احادیث عام ہیں۔مسجد وغیرہ مسجد ہر دو صورتوں کوشامل ہیں بلکہ ابن خذیمہ کی صحیح حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو فرمادیا: "لاتُصلِّ إلا إلى سُترةٍ"سُترہ کے بغیر نماز نہ پڑھیں۔جس سے واضح ہو گیاکہ سُترہ کےبغیر نماز پڑھنا درست نہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تو مساجد میں بھی اس بات کاخیال رکھتے تھے ۔امیر المومنین عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"وَرَأَى عُمَرُ رَجُلًا يُصَلِّي بَيْنَ أُسْطُوَانَتَيْنِ فَأَدْنَاهُ إِلَى سَارِيَةٍ فَقَالَ صَلِّ إِلَيْهَا"

(صحیح بخاری مع فتح الباری 1/577 باب الصلوٰۃ الی الاوسطوانہ)

"عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک آدمی کو دو ستونوں کے درمیان  نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسے ایک ستون کے قریب کردیا اور فرمایا:اس کی طرف نماز اداکر۔"

حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اس اثر کو ابن ابی شیبہ اور حمیدی نے موصولاً بیان کیا ہے مزید فرماتے ہیں:

"أراد عمرُ بذلك أن تكون صلاته إلى سترة "(فتح الباری 1/577)

"سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس کام کا ارادہ کیا اس لیے کیا کہ اس کی نماز سُترہ کی طرف ہو۔"

انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

" لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِي عِنْدَ الْمَغْرِبِ " (بخاری مع  فتح الباری 1/577)

"میں نے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو دیکھا کہ وہ مغرب(کی اذان) کے وقت ستونوں کی طرف جلدی کرتے۔"

ان احادیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں باب الصلوٰۃ الی الاسطوانہ میں ذکر کرکے بتایاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  مسجد میں بھی سُترہ رکھتے تھے اور اس کا اہتمام کرتےتھے۔

مولوی رشید احمد  گنگوہی لامع الداری 2/502 میں رقم طراز ہیں:

"فالاوجه عندي ان الامام البخاري اشار بالترجمة الاوليٰ عدم تخصيص السترة بالصحرآء"

"میرے نزدیک صحیح ترین توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اس ترجمہ باب سے یہ اشارہ فرماتے ہیں کہ سُترہ صحراء کے لیے مخصوص نہیں۔"

یہی بات مولوی محمد زکریا نے(شرح ابواب وتراجم صحیح البخاری ص:79) میں ذکر کی ہے۔اسی طرح صحیح بخاری باب یرد المصلی من مر بین یدیہ میں ابو  صالح السمان سے مروی ہے کہ:

"رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رضي الله عنه فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ يُصَلِّي إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ شَابٌّ مِنْ بَنِي أَبِي مُعَيْطٍ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَدَفَعَ أَبُو سَعِيدٍ فِي صَدْرِهِ، فَنَظَرَ الشَّابُّ فَلَمْ يَجِدْ مَسَاغًا إِلَّا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَعَادَ لِيَجْتَازَ، فَدَفَعَهُ أَبُو سَعِيدٍ أَشَدَّ مِنَ الأُولَى، فَنَالَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى مَرْوَانَ، فَشَكَا إِلَيْهِ مَا لَقِيَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَدَخَلَ أَبُو سَعِيدٍ خَلْفَهُ عَلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِابْنِ أَخِيكَ يَا أَبَا سَعِيدٍ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلْيَدْفَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ"
 (بخاری مع فتح الباری 1/581،582)

"میں نے ابو سعید  خدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوجمعہ والے دن سُترہ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ۔بنوابی معیط سے ایک نوجوان نے ان کے آگے سے  گزرنے کا ا رادہ کیا تو انہوں نے اس کے سینے میں ایک گھونسامارا۔نوجوان نے جب ان کے آگے سے گزرنے کے علاوہ کوئی جگہ نہ پائی تو وہ دوبارہ وہاں سے ہی گزرنے لگا تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اسے پہلے سے زیادہ سخت گھونسامارا۔تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس نوجوان کو رنج پہنچا۔پھر وہ نوجوان مروان کے پاس پہنچا اور ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جوکیا تھا اس کی شکایت کی۔ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس کے پیچھے ہی مروان کے پاس جاپہنچے تو مروان نے کہا:ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تیرے اور تیرے بھتیجے کے درمیان کیا جھگڑاہے؟ابوسعید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرمانے لگے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب تم میں سےکوئی لوگوں سے آڑ کر کرکے نماز پڑھے،پھر کوئی اس کے سامنے(یعنی آڑ کے اندر) سے گزرنا چاہےتو اس کو روکے۔اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑے،وہ شیطان ہے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سُترہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور اس کے وہ اہتمام کرتے تھے۔

یحییٰ بن ابی کثیر سےمروی ہےکہ:

"رأيتُ أنسَ بنَ مالكٍ في المسجدِ الحرامِ قد نَصَبَ عَصًا يصلِّي إليها"

 (المصنف لابن ابی شبہ 1/310(10) باب قدر کم یستر المصلی۔طبعۃ اخری 1/277 الاوسط لابن المنذر 5/89  طبقات ابن سعد 7/11)

"میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو مسجدحرام میں دیکھا،وہ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز ادا کررہے تھے۔"

نافع سے مروی ہے  کہ:

"كان ابن عمر إذا لم يجد سبيلاً إلى سارية من سواري المسجد، قال لي: ولّني ظهرك "(المصنف ابن ابی شیبہ 1/313)

"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب مسجد کے ستون میں سے کسی ستون کی جانب کوئی جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کردو۔"

نافع کی دوسری روایت میں یوں الفاظ ہیں:

"أن ابن عمر كان يقعد رجلا فيصلي خلفه والناس يمرون بين يدي ذلك الرجل"

(المصنف 1/313)

"عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک آدمی کوبٹھاتے پھر اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور لوگ اس آدمی کے آگے سے گزرتے۔"

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے آثار سے معلوم ہواکہ وہ مسجد وغیرمسجد  جہاں بھی نماز پڑھتے توسُترے کا خیال رکھتے۔تاکہ نماز کی  صحیح ادائیگی ہوسکے۔لہذا ہمیں اس بات کاخیال رکھنا چاہیے کہ جب بھی نماز ادا کریں خواہ مسجد ہویا کوئی دوسری جگہ ،سُترے کا خیال ضرور رکھیں۔تاکہ اگر کوئی آدمی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ سُترے کے پیچھے سے گزر سکے۔

امام ابن ہانی   رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"رآني أبو عبد الله (يعني : الإمام أحمد) يوماً وأنا أصلي ، وليس بين يدي سترة - وكنت معه في المسجد الجامع - ؛ فقال لي : استتر بشيء . فاستترت رجلا"

(مسائل احمد لاسحاق بن ابراہیم المعروف بابن ھانی 1/66)

"مجھے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور میرے آگے سُترہ نہیں تھا اور میں ان کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے مجھے کہا:کسی چیز کو سُترہ بنالے تو میں نے ایک آدمی کو سُترہ بنالیا۔"

مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ نمازی خواہ مسجد میں پڑھ رہا ہویا صحراء میں اسے سُترے کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے یہ بات ذکر کردی گئی ہے کہ وہ جب بھی نماز ادا کرتے،اس بات کاضرور اہتمام کرتے۔

اگرآج  بھی ہم مساجد میں جب نماز کے لیے آئیں تو اس کا اہتمام آسانی سے کرسکتے ہیں۔سب سے پہلے آنے والے اگر اگلی صف پوری کریں اور مسجد کی دیوارکے قریب ہوں اور بعد میں آنے والے ان کے پیچھے نماز  ادا کریں تو اس  طرح یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ایک تو صفوان میں پہلے پہنچنے کا اجر ملے گا اور ساتھ ہی سُترے کامسئلہ بھی حل ہوجائے  گا اور اگر علیحدہ  علیحدہ بھی نماز ادا کریں تو مسجد کی دیوار،ستون یاکسی اور لکڑی وغیرہ کو سُترہ بناکر نماز اداکریں۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الصلاة۔صفحہ نمبر 161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ