ہمارے علاقے میں ایک جامع مسجد ہے جمعہ کے دن اس مسجد کے ساتھ میلہ بھی لگتا ہے تاہم اس مسجد میں سات قبریں بھی ہیں کیا ایسی مسجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے۔(فضل جمیل،حال ساکن متحدہ عرب امارات)
ایسی مسجدیں جہاں قبریں ہوں وہاں نماز ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے قبروں والی جگہ یا قبروں کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کے متعلق اولاً کچھ احادیث صحیحہ تحریر کرتا ہوں پھر ان کا نتیجہ۔
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حبشہ میں موجود ایک گرجے اور اس میں لگائی ہوئی تصویروں کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الصلاۃ(427) مسلم کتاب المساجد وامواضع الصلاۃ(528) نسائی کتاب المساجد (703)
"بے شک جب ان میں کوئی نیک آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں تصویریں بناتے یہ لوگ مخلوق میں سے اللہ کے ہاں قیامت والے دن بدترین ہوں گے۔"
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الجنائز(1390)مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ (529)
"اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں علیہ السلام کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔"
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ (530)
"اللہ یہودیوں کو تباہ کرے جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔"
جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت سے قبل بیان فرمایا:
(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ (532)
"خبردار! جو لوگ تم سے پہلے تھے(یہود ونصاریٰ) وہ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیتے تھے۔خبردار! تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا میں تمھیں اس کام سے روکتا ہوں۔"
ان احادیث سے معلوم ہواکہ قبروں پر مسجدیں بنانا شرعاً حرام وممنوع ہے تو ایسی مساجد میں نماز ادا کرنا بالادلی منع ہے۔اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ شراب کی خریدوفروخت منع ہے اور اس حرمت کے اندر شراب پینے کی حرمت موجود ہے۔کیونکہ شراب کی خریدوفروخت وسیلہ ہے اور اس کا مقصود شراب نوشی کرنا ہے اور شرعی اصول یہ ہے کہ وسیلہ کی حرمت اس وسیلے کے مقصود کو بھی شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح مسجد بنانا وسیلہ ہے اور ان کا مقصود نمازادا کرنا ہے۔جب قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے توان مساجد کے اندر نماز ادا کرنا بھی حرام ٹھہرے گا۔مسجدیں بنانے کاحکم جب شریعت نے دیاہے تو اس ضمن میں نماز پڑھنے کاحکم بھی موجود ہے کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔اسی لیے امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے المحلیٰ 4/27 میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"جس نے قبروں والی جگہ یاقبر کی طرف نماز ادا کی،وہ اپنی نماز کو ضرور لوٹائے۔"
ابومرثد الغنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب النبی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ(972) مسند ابی یعلی(1514) 3/83 اسد الغابہ 4/255 مسند احمد 4/135ترمذی کتاب الجنائز(1052) ابوداود کتاب الجنائز(3229) نسائی کتاب الصلوٰۃ باب النھی عن الصلاۃ الی القبر 2/67(759) صحیح ابن خزیمہ (793،794) صحیح ابن حبان(2311)
"قبروں کی طرف نماز ادا نہ کرو اور نہ ان پر بیٹھو۔"
ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترمذی ابواب الصلاۃ(317) 1/341 ابوداود کتاب الصلوٰۃ(492) ابن ماجہ کتاب المساجد(745) مسند احمد 3/83 سنن دارمی کتاب الصلوٰۃ(1397) کتاب الام 1/1492 ابن خزیمہ (791) ابن حبان(338،339) مستدرک حاکم 1/251)
"ساری زمین مسجد ہے سوائے قبروں والی جگہ اور حمام کے۔"
اس حدیث کو ابن خزیمہ ،ابن حبان،حاکم اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے۔بعض ائمہ نے اسے معلل قراردیاہے لیکن صحیح یہ ہے کہ مرسل اور موصول دونوں طرح سے مروی ہے اور موصول بیان کرنے والا راوی ثقہ ہے۔جب مرسل وموصول کاجھگڑا ہوتو حکم موصول کاہوتا ہے ملاحظہ ہوشرح مسلم للنوی 1/256 ،282،472و 40/2 اور جلداص 282 میں امام بخاری ومسلم کا بالخصوص ذکر ہےکہ مرسل وموصول میں جب جھگڑا ہوتو ان ائمہ کے نزدیک حکم موصول کا ہوگا۔اس طرح علاقہ عراقی نے شرح الفیہ 1/83 میں یہی بات لکھی ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
(موارد الظمان کتاب المساجد (345) مسند بزار(441،442،443) بحوالہ کتاب الجنائز 1/270 امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:رواہ البزار ورجالہ رجال الصحیح اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔
مجمع الزوائد 2/30 طبرانی اوسط(5627)6/293 کتاب المعجم لابن الاعرابی (2334) 3/1082(2330) 3/1081۔اس کا ایک شاہد عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح ابن حبان میں موجود ہے۔مواردالظمان(342)التلخیص الجیر 1/277 اور دوسرا شاہد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابوداود(490) بیہقی 2/1451 التلخیص الجیر 1/277 میں موجود ہے۔
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔"
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الصلوٰۃ(432) کتاب التھجد (1187)ترمذی ابواب الصلوٰۃ (451) مسلم کتاب صلوٰۃ المسافر ین وقصرھا(208،209) مسند احمد2/1606،123،ابوداود کتاب الصلوٰۃ نسائی قیام اللیل (1597) ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ(1377)
"اپنی نمازوں کاکچھ حصہ گھروں میں ادا کیاکرو۔انہیں قبرستان نہ بناؤ۔"
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا(780) 1/539)
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔بے شک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔"
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قبروں والی جگہ پر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اورحدیث ابن عمرو ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جو گھروں کو قبرستان بنانے سے منع کیا ہے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ قبروں والی جگہ پر نماز نہیں پڑھی جاتی اور نہ ہی قرآن پڑھاجاتا ہے۔اس لیے تم گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بلکہ نفل نمازیں گھروں میں پڑھ لیا کرو تکہ یہ قبرستان نہ بنیں۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حاشیہ نسائی میں فرماتے ہیں کہ"وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا" کا مفہوم امام کرمانی نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں قبروں کی طرح نہ بناؤ کیونکہ قبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔(نسائی مع حاشیہ سیوطی وسندھی 3/ 219) دار المعرفہ بیروت)
اوراسی مقام پر علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
"اي كالقبر في الخلو عن ذکر اللہ و الصلاة""گھروں کو قبروں کی طرح نہ بناؤ جہاں اللہ کا ذکر اور نماز نہیں ہوتی۔"
ان احادیث میں قبروں والی جگہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت عام ہے خواہ قبر دائیں طرف ہو یا بائیں طرف آگے ہو یا پیچھے اس لیے کہ منع کی حدیث عام ہے ۔اور جب تک عموم کی تخصیص کتاب وسنت کی کسی دلیل سے نہ ہوتو عام کی دلالت باقی رہتی ہے ۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (الاختیارات العلمیہ 25 بحوالہ کتاب الجنائز) میں فرماتے ہیں:
"قبر والی جگہ میں اور نہ ہی قبر کی طرف نماز صحیح ہوتی ہے اور اس سے ممانعت کیوجہ سے شرک کا ذریعہ بند کرنا ہے ہمارے بعض اصحاب نے یہ بات ذکر کی ہے کہ ایک یا دو قبریں نماز سے مانع نہیں اس لیے کہ ان پر مقبرہ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔مقبرہ تین یا تین سے زائد قبروں کو کہتے ہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے عام اصحاب میں یہ فرق نہیں ہے بلکہ ان کا مانع ہے۔اور یہی بات درست وحق ہےاورمقبرہ ہر ہو جگہ ہے جس میں قبر بنائی جائے نہ کہ قبروں کا مجموعہ۔
ہمارے اصحاب نے کہا ہے قبروں کے ماحول میں ہر وہ جگہ جو مقبرہ کے نام کے تحت آتی ہے اس میں نماز نہ پڑھی جائے۔یہ بات اسے متعین کردیتی ہے کہ نماز کی ممانعت ایک قبر کو بھی شامل ہے۔
قرآن وسنت کے مذکورہ بالا دلائل اور ائمہ محدثین کی توضیحات سے معلوم ہو کہ قبروں والی جگہ پر نماز نہیں ہوتی اور ا گر زیادہ قبریں نہ ہوں ایک ہی قبر ہوتو وہ بھی درست نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب