سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) فجر کی اذان میں"الصلاة خير من النوم" کہنا

  • 20831
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 7950

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافجر کی اذان میں "الصلاة خير من النوم" کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے یا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایجاد ہے؟تفصیل سے راہنمائی فرمائیں۔(عمران ،لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو محذورہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اذان  کا طریقہ جو بذات خود تعلیم فرمایا اس میں صبح کی اذان کے لیے"حی علی الفلاح" کےبعد دو مرتبہ"الصلاة خير من النوم"

کہنا صحیح ثابت ہے۔ابومحذورہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"قلت يا رسول الله علِّمني سنة الأذان ، قال : فمسح مقدم رأسي وقال : تقول : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر ... فإن كان صلاة الصبح قلت : الصلاة خير من النوم , الصلاة خير من النوم"

 (ابوداود کتاب الصلاۃ باب کیف الاذان(500،501) مودار الظمان (289) طبرانی کبیر 7/174 حلیۃ الاولیاء 8/310 عبدالرزاق 1/458(1779) شرح السنۃ باب التثویب 2/263،264(408) بیہقی 1/394 ابن خذیمہ 1/201(385) دارقطنی 1/233)

"میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے سر کے اگلے حصے کو چھوا اور فرمایا تو کہہ اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔اگرصبح کی نماز(کے لیے اذان) ہوتو تُو کہہ "الصلاة خير من النوم" , "الصلاة خير من النوم"

"عن أنس رضي الله عنه قال : من السنة إذا قال المؤذن في أذان الفجر : حي على الفلاح قال : الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم"

(صحیح  ابن خذیمہ 1/202 (386) دارقطنی 1/242 التحقیق لابن جوزی 1/311 بیہقی 1/423 امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا اس کی سند صحیح ہے نیز دار قطنی میں "الصلاة خير من النوم" ، "الصلاة خير من النوم" مرتین کے الفاظ ہیں)

"انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:سنت میں سے یہ ہے کہ جب موذن  فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہہ لے تو دو مرتبہ "الصلاة خير من النوم" کہے۔"

اور یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہی ہوتی ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

"واصحاب النبي صلي الله عليه وسلم لا يقولون السنة الا لسنة رسول الله صلي الله عليه وسلم "

(کتاب الآم 1/240)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  لفظ"سنت" صرف سُنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ہی بولتے تھے۔"

پس ثابت ہوا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا "الصلاة خير من النوم" کو فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دوبار سنت کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ ہے۔

"عن بلال أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم يؤذنه لصلاة الفجر ، فقيل : هو نائم ، فقال الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم فاقرت في تاذين الفجر فثبت الامر علي ذلك"

(ابن ماجہ کتاب الاذان(716) اس کی سند میں انقطاع ہے لیکن چونکہ اوپر صحیح سند سے ثابت ہے اس لیے اسے بطور تائید اور شاہد کے ذکر کردیا ہے)

"بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے تشریف لائے تو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سور ہے ہیں تو بلال  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے دوبار کہا "الصلاة خير من النوم" نماز نیند سے بہتر ہے تو اسے  فجر کی اذان میں مقرر کردیاگیا تو  پھر معاملہ اس پر پختہ ہوگیا۔"

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ"الصلاة خير من النوم" کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو تعلیم فرمائی۔یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایجاد نہیں ہے جیسا کہ روافض کہا کہنا ہے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف یہ بات غلط منسوب ہے اور جس  روایت کاحوالہ دے کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے وہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی۔ملاحظہ ہو:

"عن مالك أنه بلغه أن المؤذن جاء إلى عمر بن الخطاب يؤذنه لصلاة الصبح فوجده نائما فقال الصلاة خير من النوم فأمره عمر أن يجعلها في نداء الصبح"

(موطا مالک کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی النداءللصلوٰۃ (8) 42 مع ضوء السالک)

"مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کو یہ بات پہنچی کہ موذن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس نماز صبح کی اطلاع دینے کے لیے آیا تو اس نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو سوتا ہوا پایا۔موذن نے کہا "الصلاة خير من النوم" عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اسے حکم دیا کہ اسے صبح کی اذان میں کہے۔"

موطا کی یہ روایت معضل ومرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔یہی روایت سنن دارقطنی 1/243 میں بھی موجود ہے لیکن اس کی سند بھی صحیح نہیں۔اس میں کئی علل ہیں:

1۔سفیان ثوری مدلس ہے اور اس روایت میں تصریح بالسماع نہیں ۔

2۔محمد بن عجلان بھی مدلس ہیں اور ان کی بھی تصریح بالسماع نہیں ہے۔علامہ البانی  حفظہ اللہ مشکوٰۃ کی تحقیق میں فرماتے ہیں:

"وهو ضعيف لا عضاله اوارساله"

(مشکوٰۃ 1/206)

"یہ روایت معضل یامرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔"

3۔ایک سند میں العمری ضعیف راوی ہے ۔اگر یہ روایت صحیح بھی تسلیم کرلی جائے تو اس کی مراد وہ نہیں ہے جو روافض ذکر کرتے ہیں بلکہ مفہوم یہ ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سورہے تھے اور موذن نے آکر یہ کلمہ ان کے  پاس کہا تو انہوں نے بتایا کہ امیر کے دروازے پر آکر نیند سے بیدار کرنے کے لیے یہ کلمہ نہیں کہتے بلکہ اس کا تعلق فجر کی اذان کے ساتھ ہے لہذا اسے وہاں سے رکھا جائے۔جیسا کہ اور احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز فجر کی اذان میں یہ کلمہ تعلیم فرمایا ہے۔نیز یہ بھی معلوم کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کس انداز سے کرتے تھے کہ آپ کی تعلیمات میں کمی بیشی کو ناپسند کرتے تھے ۔جو کلمات جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سکھائے،انہیں وہاں ہی رکھنے کاحکم دیا تو اس لحاظ سے یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی منقبت اور شان کی دلیل ہوگی جو کہ روافض کے لیے سم قاتل ہے۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ شیعہ حضرات نے جو اپنی اذان میں:

"اشهد ان امير المومنين وامام المتقين علي حجة الله علي الخلق"

وغیرہ کا اضافہ کیا ہے یہ کسی صحیح تو کجا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو محذورہ یا بلال  رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی کو تعلیم دیا ہو بلکہ فقہ جعفریہ کی کتب میں ایسا کلمہ کہنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہو۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وحدیث کی  روشنی میں ج،ص 101تا108)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاذان۔صفحہ نمبر 141

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ