سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا

  • 20830
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1229

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاشوہر اور بیوی وفات کے بعد ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں یعنی شوہر اگر پہلے فوت ہوجائے۔بیوی اسے غسل دے سکتی ہے۔اسی طرح کیا بیوی پہلے فوت ہوجائے تو شوہر اسے غسل دے سکتا ہے۔کتاب وسنت کی رو سے واضح کریں۔(ایک سائل،لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زوجین میں سے کوئی ایک پہلے وفات پاجائے تو دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ:

"رَجَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ بِالْبَقِيعِ، وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ: وَارَأْسَاهْ قَالَ: بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ ثم قَالَ: ( مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ، ثُمَّ صَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ؟ "

(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی غسل الرجل امراتہ وغسل المراۃ زوجھا(1465) سنن الدارقطنی کتاب الجنائز (1809،1810،1811) السنن الکبری للبیہقی کتاب الجنائز باب الرجل یغسل امراتہ اذا ماتت 3/316 مسند احمد 6/228 سنن الدارمی 1/39 مسند ابی یعلیٰ 8/56 سیرت ابن ہشام 2/366)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (ایک آدمی کے جنازے سے) بقیع سے واپس آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اس حالت میں پایا کہ میرے سر میں درد ہورہاتھا اور میں ہائے ہائے کررہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  !بلکہ میرے سر میں بھی درد ہورہا ہے پھر فرمایا:تجھے  فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا اور تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھے دفن کروں گا۔"

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:

"لو كنت استقبلت من أمري ما استدبرت ما غسل النبي صلى الله عليه وسلم غير نسائه"

 (ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی غسل الرجل امراتہ وغسل المراۃ زوجھا(1464) مسند ابی یعلیٰ 7/468(4494) مسند احمد 6/267،ابوداود کتاب الجنائز باب فی ستر المیت عند غسلہ(3141) السنن الکبریٰ للبیہقی 3/398) مستدرک حاکم 3/59 موارد الظمان (2157) شرح السنۃ 5/308 مسند شافعی 1/211)

"اگر مجھے پہلے وہ بات یاد آجاتی جو مجھے بعد میں آئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو آپ کی بیویوں کے سواکوئی غسل نہ دیتا۔"

قاضی شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی اوپر والی حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:

"فيه دليل على أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت "

(نیل الاوطار 4/31)

"اس حدیث کی دلیل ہے کہ عورت جب مرجائے تو اس کو اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے اور اس دلیل سے عورت بھی خاوند کو غسل دے سکتی ہےکیونکہ شوہر اور بیوی کا ایک پردہ ہے۔جس طرح مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے ،عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔

علامہ محمد بن اسماعیل صاحب سبل السلام  رحمۃ اللہ علیہ  راقم ہیں:

"فيه دلالة على أن للرجل أن يغسل زوجته وهو قول الجمهور"

(سبل السلام 2/741،742)

اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور یہی قول جمہور محدثین  رحمۃ اللہ علیہ   کا ہے۔"

اسی طرح سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے غسل دیا تھا۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں کہ:

"أن أسماء بنت عميس امرأة أبي بكر الصديق غسلت أبا بكر حين توفي"  

(الموطا للامام مالک کتاب الجنائزص: 133 مع ضوء السالک المصنف لعبد الرزاق 3/410 الاوسط لابن المنذر 5/335 شرح السنہ 5/308)

"جس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فوت ہوئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے انہیں غسل دیا۔"

اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ:

"أَنَّ فَاطِمَةَ «أَوْصَتْ أَنْ يُغَسِّلَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ وَأَسْمَاءُ فَغَسَّلَاهَا"

(دارقطنی باب الصلاۃ علی القبر (1833) السنن الکبریٰ للبیہقی 3/396 المصنف لعبد الرزاق 3/410 شرح السنۃ 5/309 مسندشافعی 1/211،حلیۃ الاولیاء 2/43 فی ترجمۃ فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اسنادہ حسن)

"بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے وصیت کی کہ انہیں ان کاخاوند علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   غسل دیں تو ان دونوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو غسل دیا۔

علامہ احمد حسن محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"دليل على أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت وهي تغسله قياسا وبغسل أسماء لأبي ... بإسناد حسن ولم يقع من سائر الصحابة إنكار على علي وأسماء فكان إجماعا "

(حاشیہ بلوغ المرام ص:105)

"یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اس کا شوہر غسل دے سکتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اجماع ہے۔اس لیے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر کسی بھی صحابی کاانکار منقول نہیں۔یہ مسئلہ اجماعی ہوا۔"

عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا توسب اہل علم کے ہاں متفق علیہ ہے۔(الاوسط لابن المنذر 5/334) البتہ مرد کااپنی بیوی کو غسل دینا مختلف فیہ ہے۔جمہور محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں جائز ودرست ہے اور یہی صحیح ہے جیساکہ اوپر ذکر ہوا ہے۔امام ابوبکر محمد بن ابراہیم المعروف بابن المنذر  رحمۃ اللہ علیہ  نے علقمہ رحمۃ اللہ علیہ ، جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہ ،عبدالرحمان بن الاسود رحمۃ اللہ علیہ ،سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ ،ابوسلمہ بن عبدالرحمان رحمۃ اللہ علیہ  ،قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ ،مالک  رحمۃ اللہ علیہ ،اوزاعی  رحمۃ اللہ علیہ   ،شافعی  رحمۃ اللہ علیہ ،احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ  بن راہویہ جیسے  ائمہ محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  سے یہی بات نقل کی ہے۔(الاوسط 5/335،336)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الطهارة۔صفحہ نمبر 134

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ