میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُنیا میں آمد پر خوشی کا اظہارہے اورخوشی منانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
اس آیت میں یہ واضح ہے کہ ہم اللہ کے فضل اور رحمت پر خوش ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سب سے بڑی رحمت ہے:
اس پر خوشی منانے سے تو کافر کو بھی فائدہ پہنچتاہے ۔جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ابو لہب سے ہرسوموار کے دن عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے کیونکہ اس نے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی بشارت دینے والی اپنی لونڈی کو آزاد کردیا تھا۔قرآن مجید کی اس آیت اور بخاری شریف کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کاجشن منانا درست ہے۔آپ لوگ کیوں نہیں مناتے؟اور مجلہ میں ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔(ایک سائل)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت،ہجرت،تبلیغ،جہاد،امت پر شفقت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوسرے احوال پر مسلمان سے خوشی مطلوب ہے۔یہ خوشی سال کے 360 دنوں میں سے صرف ایک دن یا رات تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہر وقت اور ہر حالت میں ہونی چاہیے ۔یہ کس قدر زیادتی ہے کہ ہم مسلمان ہوکرسال میں صرف ایک دن تو خوشی اور جشن منائیں باقی سارا سال نہ ہمیں آپ کاقول وفعل یادر ہے،نہ ہی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ نظر آئے بلکہ ہماری زندگی کا ہر پہلو یہود ونصاریٰ اور ہندوؤں کی رسم ورواج کا مظہر ہو اور سال میں صرف ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر وہ بھی ان غیر مسلم قوموں کی مشابہت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اسوہ کے خلاف گزرے۔قرآن مجید کی آیت فَلْيَفْرَحُوا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی اور جشن منانے کا استدلال حقیقت میں تحریف قرآن ہے۔کیونکہ فَلْيَفْرَحُوا کا معنی خوشی مناؤ کون سی لغت میں ہے؟بتاؤ کس مفسر یا مترجم نے لکھا ہے کہ فَلْيَفْرَحُوا کا معنی جلوس نکالو،بھنگڑے ڈالو،موسیقی بجاؤ،بیل چھکڑے،بسیں،ٹرک،ٹرالیاں سجا کر میدان میں آؤ گنبد خضراء کا ماحول بناؤ اور اونٹوں پر بیٹھ کر گلی گلی گھومو،شرکیہ نعتیں پڑھو۔
ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ہلال بن یساف رحمۃ اللہ علیہ ،زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ ،اور ضحاک رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم ۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے بلند پایہ مفسرین نے اس"فضل" اور رحمت" کی تفسیر اسلام اور قرآن مجید کے ساتھ کی ہے جس کی تائید ا س سے پہلی آیت بھی کرتی ہے ۔امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ،امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ ،امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ،ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بہت سے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ائمہ کی تفاسیر میں سے کسی بھی تفسیر میں نہیں ہے کہ اس رحمت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہے۔یہ واضح ہو کہ لوگوں کے لیے اصل رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور رسالت ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ آیت نص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جہانوں کے لیے رحمت ہے۔اور صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیاکہ آپ مشرکین کے لیے بددعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کہ میں لوگوں پر لعنت کرنے کے لیے نہیں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔"
یہ آیت اور حدیث دونوں اس بات کو واضح کررہی ہیں کہ جہانوں کے لیے رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے۔دوسرا جو بخاری شریف کی حدیث سے استدلال ہے وہ بھی باطل ہے:
1۔پہلی وجہ اہل سنت والجماعت کایہ عقیدہ کہ دین اسلام وحی کے علاوہ کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا اور یہ بخاری کی حدیث میں جس بات کاتذکرہ ہے۔وہ خواب ہے اورخواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانہیں،جوکہ وحی ہوتا ہے بلکہ عباس بن عبدالمطلب کا ہے اور ہے بھی ان کے مسلمان ہونے سے پہلے کا۔ایک کافر آدمی کے خواب سے دین کیسے ثابت ہوسکتا ہے،جسے بیان بھی اس نے حالت کفر میں کیا ہو؟
2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ کافر کو مرنے کے بعد اس کے اچھے اعمال کی جزا نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور ہم پہنچے ان کے عملوں کی طرف جو انہوں نے کیے تھے تو ہم نے اسے اُڑتی ہوئی خاک بنادیا۔"
دوسری آیت:
"یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے "
3۔اگر ابو لہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کاسن کر خوش بھی ہوا تھا تو وہ ایک طبعی خوشی تھی کیونکہ ہر انسان اپنے عزیزوں کے بچے کی پیدائش پرخوش ہوتا ہے ۔اور جو خوشی اللہ کے لیے نہ ہو،اسکا کوئی ثواب نہیں ملتا اور پھر کیا وہ خوشی ہرسل مناتا تھا یا ایک ہی مرتبہ اس نے منائی تھی۔
4۔قرآن مجید کی نصوص سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (36) اور وه لوگ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں"
دوسری آیت:
"یقیناً مجرم جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے نہ ہلکا کیاجائے گا ان سے عذاب اور وہ اس میں نااُمید ہوکر پڑے رہیں گے۔"
5۔اگر واقعی آپ کے خیال میں ان دلیلوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی اور جشن منانے کاشرعی حکم ثابت ہوتا ہے تو خود امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی سمجھ نہ آئی۔اگر انہیں بھی سمجھ تھی تو انہوں نے یہ جشن کیوں نہیں منایا؟
پھر اس روایت میں ہے کہ ابولہب نے کہا:میں اپنی انگلی سے پانی چوستا ہوں۔جبکہ انگلی اس کے ہاتھوں کاجز ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
"ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا۔"
قرآن مجید کی یہ آیت بھی اس کی تردید کررہی ہے اب بات ابولہب کی درست ماننی ہے یاقرآن کی ؟فیصلہ کریں۔
اور یاد رکھیں!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دین اسلام میں وہ چیزیں داخل کردیں جن کااسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ اس کامطلب یہ ہوگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچانے میں خیانت کی ہے۔نعوذ بالله من ذلك۔
بلکہ خوشی کامطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس میں کسی قسم کا اضافہ کرنے سے پرہیز کریں اور دل وجان سے اسلام کے احکامات تسلیم کریں۔یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت واتباع ہے۔(ازع۔ع مجلۃ الدعوۃ جولائی 1997ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب