نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟بعض لوگ اس کو آدم علیہ السلام اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت قرار دیتے ہیں ،کیایہ درست ہے؟(عبدالخالق،شیخوپورہ)
اذان سنتے ہوئے موذن کے کلمات کا جواب دینے اور موذن کے کلمات ۔ أَشْهَدُ أَنْ ۔۔۔کے بعد ان کلمات: "أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا"
(ابن خزیمہ 1/229 مسلم 1/290)
کے علاوہ کوئی اورعمل قرآن وحدیث صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں۔اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوتی تھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سنتے تھے،انہیں جو تعلیم دی گئی تھی وہ یہ تھی۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(رواہ مسلم والبخاری)
"جب تم اذان سنوتو جو کلمات موذن کہتا ہے وہی تم بھی کہا کرو اور پھر مجھ پر درود پڑھو۔"
صحیح مسلم کی دوسری روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب موذن اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ کہے تو تم اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ کہو،پھر جب وہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے تو تم بھی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہو،پھر جب وہ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کہے تو تم بھی أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کہو۔پھر جب وہ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کہے تو تم کہو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پھر جب وہ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہ تو تم بھی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہو،جب اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ کہے تو تم بھی اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ کہو،جب لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہو۔جس نے جواب خلوص دل سے دیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔"
اس کے علاوہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انگوٹھے چومنے اور آنکھیں ملنے کاحکم دیاہو۔نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی ایک صحابی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔حتیٰ کہ ائمہ اربعہ سے کوئی اس کی سند پیش نہیں کرسکتا۔
اس صریح اورواضح حدیث کے ہوتے ہوئے(جس میں أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کےجواب میں صرف وہی کلمہ دہرانے کی ہی تعلیم ہے۔اوراس سارے جواب پر جنت کی گارنٹی ہے۔کہیں بھی انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر ملنے کا ذکر نہیں ہے)افسوس صدافسوس کہ لوگوں نےکہیں انگوٹھے چومنے،کہیں"قرۃعینی"والے الفاظ کہنے شروع کردیے ہیں۔
یہ خود ساختہ حرکتیں اور خودساختہ الفاظ ایسے ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ اس بارے میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور دوسری جتنی روایات ہیں وہ سب کی سب موضوع یعنی بناوٹی اور خودساختہ ہیں۔
چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب رد المختار 1/293 میں ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
"ولم يصح في المرفوع من كل هذا شيء. ""اس بارے میں جتنی بھی مرفوع روایات ہیں ایک بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔"
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن طاہر حنفی کی کتاب التذکرہ کےحوالہ سے لکھا ہے کہ جس روایت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انگوٹھا چومنے کا بیان کیاجاتاہے۔وہ صحیح نہیں ہے۔(دیکھیں الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ 9)
حسن بن علی ہندی تعلیقات مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
"كل ما روي في وضع الابها مين علي العينين عند سماع الشهادة الموذن لم يصح""موذن سے شہادتیں کے کلمے سنتے وقت آنکھوں پر انگوٹھے رکھنے کے بارے میں جو کچھ روایت کیا گیا ہے ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں۔"
علامہ عینی حنفی نے اس سے منع فرمایا ہے،کہتے ہیں:
"يجب على السامع قطع القراءة، وترك الكلام والسلام ورده وكل عمل غير الإجابة""اذان سننے والے کو اذان کاجواب دینے کے علاوہ اورہرعمل کو چھوڑدینا ضروری ہے۔"
حتیٰ کہ اہل علم نے تو ان روایات کو من گھڑت اور خود ساختہ قرار دیا ہے ۔امام ابو نعیم الاصبہانی نے کہا:
"ماروي في ذلك كله موضوع"علامہ سیوطی نے بھی کہا ہے:
"كلها موضوعات"اور جس حدیث میں"قرۃ عینی"والی عبارت ہے اس کے متعلق امام شیبانی تمییز الطیب من الخبیث میں فرماتے ہیں:
"قال شيخنا ولا يصح في سنده مجاهيل مع انقطاعه عن الخضر وكل ماروي من هذا فلا يصح رفعه البتة"(تمییز الطیب من الخبیث ص:189)
"شیخ سخاوی فرماتے ہیں کہ یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث صحیح نہیں کیونکہ یہ منقطع بھی ہے اور اس کی سند میں راوی بھی مجہول ہیں۔"
امام الانبیاء کانام سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانا یہ محبت نہیں ہے بلکہ محبت اس چیز کانام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اورفرمانبرداری کرنے کے لیے کائنات کی ہرچیز کو قربان کردیا جائے۔دیکھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(شعب الایمان بیہقی، مشکوٰۃ کتاب الادب وقال الالبانی حدیث حسن)
"تمھیں کس چیز نے ایسا کرنے پر اُبھارا ہے ؟کہنے لگے:اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے۔تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے یہ بات پسند ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے،وہ بات کرتے وقت سچ بولا کرے،امانت میں خیانت نہ کرےاور پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے۔"
یعنی قول وفعل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا تابع بن جائے۔(مجلۃ الدعوۃ جولائی 1997ء از؛ع۔ع)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب