ماہ محرم الحرام میں تعزیہ نکالنا ،غازی عباس کے نام کا پنجہ نکالنا،ڈولی بنانا۔عورتوں کابازاروں میں مردوں کے ساتھ مل کر سینہ کوبی کرنا وغیرہ شرعاً کیسا ہے۔کتاب وسنت کی رو سے واضح کریں؟(محمد نواز،ساہیوال)
عشرہ محرم الحرام کے اندر یہ اُمور جو سرانجام دیے جاتے ہیں ،سراسر بدعت اور ناجائز ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک ارشادات ملاحظہ ہوں:
1۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری (2697)کتاب الصلح ،باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود مسلم(1718) کتاب الاقضیہ باب نقص الاحکام الباطلہ ورد محدثات الامور)
"جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی،وہ مردود ہے۔"
2۔یہی حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:
(شرح السنۃ 1/211 باب رد البدع والاھواء)
3۔صحیح مسلم(1718) کتاب الاقضیہ میں ہے:
"جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے۔"
4۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
(صحیح بخاری (7277) کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
"بے شک سب سے بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے،سب سے اچھی سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور سب سے بدترین کام نئے ایجاد کردہ (بدعات) ہیں۔بے شک جو تم وعدہ دیے گئے ہوآنے والا ہے اورتم(اللہ تعالیٰ کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو۔"
5۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخطبہ ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کہتے تھے:
(صحیح مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوۃ والخطبہ(867)
"یقیناً سب سے بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے،سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور سب سے بدترین کام نئے ایجاد کردہ(بدعات) ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
مذکورہ بالااحادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ ہدایت وراہنمائی طریق وراستہ صرف وہی حق ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور جو کام محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت نہ ہو بلکہ خود تراشیدہ ہو وہ گمراہی وبدعت ہے۔
مذکورہ بالااُمور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز ثابت نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو چہرہ پیٹنے اور سینہ کوبی کرنے سے منع فرمایا ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بخاری کتاب الجنائز باب لیس منا من شق الحیوب(1294) شرح السنۃ 5/436)
"جس نے رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیے اور جاہلیت کے واویلے کی طرح واویلا کیا،وہ ہم میں سے نہیں"
اسی طرح نوحہ گری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
(شرح السنۃ 5/437 مسلم کتاب الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ(934)
"میری اُمت میں چار کام جاہلیت کے امر سے ہیں جنھیں یہ ترک نہیں کریں گے۔1۔خاندانی وقار پر فخر کرنا۔2۔نسب ناموں میں طعن کرنا۔3۔ستاروں کے ذریعے پانی طلب کرنا۔4۔نوحہ گری کرنا۔"
اسی طرح اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
"جب نوحہ کرنے والی نے اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کی تو قیامت والے دن اس طرح اُٹھائی جائے گی کہ اس پر گندھک کاکرتہ اور خارش کی قمیص ہوگی۔"
ابوبردہ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت تکلیف تھی کہ غشی طاری ہوگئی اور ان کا سر ان کے گھر کی کسی عورت کی گود میں تھا تو ان کےگھر سے ایک عورت چلائی انہیں طاقت نہ تھی کہ اس عورت پر کوئی چیز لوٹاتے جب افاقہ ہوا تو فرمایا:
"جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیزار تھے میں بھی اس سے بیزار ہوں یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت آواز بلند کرنے والی،بال منڈانے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بری تھے۔"
مذکورہ بالا حدیث صحیحہ سے معلوم ہواکہ تعزیت کے جلوس نکالنا،آہ وبکا کرنا،سینہ کوبی اور ماتم کرنا،مرثیے کہنا اور نوحہ گری کرنا،شریعت اسلامیہ میں ممنوع وحرام ہے۔اب فقہ جعفری کے دو حوالے ذکر کرتا ہوں۔
1۔فقہ جعفری کی معروف ترین کتاب"الانوار النعمانیہ 1/216"میں معراج کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی جس کے پیچھے سے آگ داخل ہوتی اور منہ سے نکلتی تھی۔فرشتے آگ کے ہتھوڑوں سے اس کے سر اور ہاتھوں کو مارتےتھے۔فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا میرے محبوب اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک !مجھے بتائیں کہ ان عورتوں کا کیا عمل تھا کہ اللہ نے ان پر عذاب مسلط کررکھاتھا۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:میری بیٹی) وہ گانے والی ،نوحہ گر،حسد کرنے والی عورت تھی۔"
اسی طرح یہی روایت ملاباقر مجلسی کی کتاب حیات القلوب 2/542 باب بست وچہارم اور عیون اخبار الرضا 2/10 میں بھی موجود ہے۔
2۔من لا يحضره الفقيه 1/120 میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"جس نے کسی قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔"
نیز صاحب کتاب نے"مَثَلَ مثالا"کی یہ شرح کی ہے کہ:
"من ابدع بدعة ودعا اليه اووضع دينا فقدخرج من الاسلام "(من لا يحضره الفقيه 1/121)"جس نے کوئی بدعت ایجاد کی اور اس کی طرف دعوت دی یا دین بنایا وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔"
مذکورہ بالا فقہ جعفریہ کے حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ نوحہ گری کرنا یا شبیہ بناتا جیسا کہ غازی عباس کاعلم اور ہاتھ وغیرہ بنانا شرعاً حرام ہے اور ایسے اُمور ہیں جنھیں دین سمجھ کر اسلام میں داخل کردیا گیا ہے۔ان رسمی جلوسوں،تعزیوں اور نوحہ گری کی پارٹیوں کا گلی بازار وغیرہ میں گھومنا اسلام سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔بلکہ یہ بدعات خیر القرون کے بعد کی ایجاد ہیں۔امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب البدایہ والنہایہ 11/230ھ میں 352ھ کے حالات میں رقم طراز ہیں:
"في عاشر المحرم من هذه السنة امر معز الدوله من بويه...قبحه الله...ان تغلق الاسواق وان يلبس النساء المسوج من الشعر وان يخرجن في الاسواق حاسرات عن وجوههن ناشرات شعورهن يلطمن وجوههن ينعن علي الحسين بن علي بن ابي طالب ولم يمكن اهل السنة منع ذلك لكثرة الشيعة وظهورهم وكون السلطان معهم""اس سال کے دس محرم کو معزالدولہ بن بویہ۔۔۔اللہ اس کا برا کرے۔نے۔۔۔حکم دیاکہ بازار بند کردیے جائیں اور عورتیں بالوں کے بنے ہوئے کمبل پہن کر بازاروں میں اس طرح نکلیں کہ وہ چہرے ننگے کرنے والیاں اور بال بکھیرنے والیاں ہوں۔اپنے چہروں کو تھپڑ ماریں،حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نوحہ کریں اور اس کام سے روکنا اہل سنت کے بس میں نہ تھا۔اس کیوجہ یہ تھی کہ شیعہ حضرات کی اکثریت تھی،انہیں غلبہ حاصل تھا اور بادشاہ وقت ان کےساتھ تھا۔"
امام ابن اثیر جزری نے بھی تقریباً یہی بات تحریر کی ہے ملاحظہ ہو الکامل لابن اثیر 2/197 اور یہ بات شیعہ حضرات کو بھی مسلم ہے۔(ملاحظہ ہو مجاہد اعظم ص:333 لشاکر حسین نقوی)
مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ تعزیہ وغیرہ کی بدعات کارواج چوتھی صدی ہجری میں ہواہے اور اس کابانی معز الدولہ بن بویہ ہے۔اس سے قبل اس بدعت کا کہیں نام ونشان تک نہ تھا۔لہذا ایسی بدعات وخرافات سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اوران جلوسوں اور تعزیوں میں شامل ہوکر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ ان میں حاضری دینے والا گناہ پر تعاون کرتا ہے۔اس سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"نیکی اور تقویٰ کےکاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کروگناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون نہ کرو۔اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔"(مجلۃ الدعوۃ مئی 1999ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب