سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) ترانے کے لیے قیام کی شرعی حیثیت

  • 20819
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3657

سوال

(3) ترانے کے لیے قیام کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صبح کی اسمبلی میں کیا حالتِ نماز والا قیام پاکستانی قومی ملی ترانے کی تعظیم کرتے ہوئے،بے حس وحرکت کھڑے ہوجانا،کسی قسم کی بات،سوال،جواب،حرکت حتیٰ کہ اشارہ تک نہ کرنا،کیاجائز ہے؟خالص شرعی نقطہ نظر سے جواب دیں۔قرآنی نصوص،حدیث وسیرت کے دلائل اور عہد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی عملی جھلک سے واضح کریں۔کیا ایسا کرنا حکم اللہ ،حکم رسول اللہ کی رو سے جائز،مستحسن ہے یا اس کے برعکس ناجائز وحرام ہے،اسی طرح کلاس  روم میں استاد،پروفیسر، لیکچرار وغیرہ کے آتے ہی اپنی جگہ پر کھڑے ہوجانا کیسا ہے؟یہ سوال صرف میرا ہی نہیں بلکہ عالمی اساتذہ برادری کا ہے(محبوب الٰہی توحیدی۔راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازوالا قیام ایک شرعی عبادت ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے ۔اللہ کے علاوہ کسی دوسرے آدمی،عورت یا کسی  ترانے ونغمے کی تعظیم  کے لیے بھی اپنی جگہ پر کھڑا ہونا اور جیسی حرکات آپ نے ذکر کی ہیں،اس طرح کی اختیار کرنا جائز نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَو‌ٰتِ وَالصَّلو‌ٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨﴾... سورةالبقرة

"نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے خاموش ہوکر کھڑے  ہوجاؤ۔"

معلوم ہوا کہ قیام اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا چاہیے اللہ کےعلاوہ کسی کے لیے قیام کرنا درست نہیں،جو اس چیز کو پسند کرتے ہیں کہ لوگ ان کے لیے کھڑے ہوں،ان کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوزخ کی وعیدسنائی ہے۔خواہ وہ استاد ہو یا مرشد،چودھری ہو یا وڈیرا،صدر ہو یاوزیر اعظم یاکسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا افسر ہو،اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالیا ہے ۔سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"

(ابوداود کتاب الادب باب فی قیام الرجل للرجل(5229) ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی کراھیۃ قیام الرجل للرجل(2764)

"جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔"

ابومجلز فرماتے ہیں کہ:

" ان معاوية دخل بيتا فيه ابن عامر وابن الزبيرفقام ابن عامر وجلس ابن الزبير، فقال له معاوية اجلس فاني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ العباد قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ بيتاً في النَّارِ"

(مسند احمد 4/93،100،شرح السنۃ 12/295(3330)

"امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک گھر میں داخل ہوئے اس گھر میں ابن عامر اور ابن الزبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے تو ابن عامر کھڑے ہوگئے اور ابن الزبیر بیٹھے رہے۔ابن عامر کو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:بیٹھ جا،بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو  فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ بندے  اس کے لیے مطیع ہوکر کھڑے کیے جائیں وہ اپنا گھر آگ میں بنالے۔"

(امام بغوی نے اس کی سند کو حسن قرار دیاہے)

امیر معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس طرح بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"من سره أن يقوم له بنو آدم ، و جبت له النار " .

(طبرانی کبیر 19/362 مشکل الاثار طحاوی 2/38،39)

"جو آدمی اس بات کو پسندکرے کہ یہ اولاد آدم اسکے لیے قیام کی صورت میں مطیع ہوجائے اس کے لیے آگ واجب ہے۔"

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بہت زیادہ محبت تھی لیکن اتنی شدید محبت کے باوجود وہ آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے۔

"أَنَسٍ قَالَ : " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ " .

(ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی کراھیۃ قیام الرجل للرجل(2763) شرح السنہ 12/294)

"انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا اور جب وہ آپ کو دیکھ لیتے تو کھڑے نہیں ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اس قیام کو براسمجھتے ہیں۔"

اس حدیث کو امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  وامام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہما نے صحیح  قرار دیاہے ۔اس حدیث صحیح سے معلوم ہواکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی پاکباز،اعلیٰ وارفع ہستی کے لیے قیام جائز نہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ دوسرا کون سا ایسا ہوسکتا ہے جس کے لیے قیام کیاجائے؟

لہذا  کسی سکول ماسٹر،جج،وکیل،پروفیسر،ڈائریکٹر،صدر،وزیر اعظم،وزیر اعلیٰ،فوجی افسر ،جرنل وکرنل،بریگیڈیئر،سیاستدان دینی وسیاسی رہنما کے احترام میں یا کسی گلوکار وغیرہ کے ترانے ونغمے یاگانے پر کھڑا ہوناشرعاً درست نہیں بلکہ جو لوگ اس قیام کو پسند کرتے ہیں وہ جیتے جی اس دنیا میں ہی اپنے لیے جہنم خرید رہے ہیں۔بعض لوگ قیام کے جواب کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں۔کہ سعدبن معاذ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے آنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے انصار کو فرمایا:

"قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ"

یعنی"اپنے سردار کی طرف اُٹھو۔"

یہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہے اور کہتے ہیں کہ معلوم ہواکہ کسی کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہوناجائز ہے۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ :

"قوموا لسيدكم" تم اپنے  سردار کی خاطر اُٹھو بلکہ یوں فرمایا:

"قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ"

اپنے سردار کی طرف اُٹھ کر جاؤ ۔ان دونوں میں بہت فرق ہے۔

اس کی دوسری وجہ صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  من الاحزاب(4122) میں ہے کہ جنگ خندق میں سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  زخمی ہوگئے تھے۔ایک قریشی حبان بن قیس نے ان کی  بازو کی رگ میں تیر مارا تھا جس کی بناپر وہ شدیدزخمی ہوگئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی خبر گیری کرنے کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خندق سے واپس آئے تو آکر اسلحہ اتارااورغسل کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جبرئیل امین تشریف لائے،انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسلحہ اتار دیا ہے اللہ کی قسم! میں نے تو ابھی اسلحہ  نہیں اتارا،ان کی طرف نکلیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:"کہاں"تو جبرئیل علیہ السلام  نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔قصہ مختصر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنوقریظہ کا محاصرہ کیاکیونکہ انہوں نے معاہدہ توڑ کر کفار کی مدد کی تھی۔جب وہ محاصرہ سے تنگ آگئے تو انہوں نے قلعوں سے نکل کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کرنا اس شرط پر منظور کیاکہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو حکم کریں گے،وہ ہمیں منظور ہے۔ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے۔جب سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مسجد کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انصار سے فرمایا:"اپنے سردار یا بہترین آدمی کی طرف اٹھو۔"مسند احمد 6/142 میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

"قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَأَنْزِلُوهُ"

"اپنے سردار کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو۔"

ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری شرح صحیح البخاری 7/412 میں اس پر سکوت اختیار کیا،جو ان کے نزدیک صحیح یاحسن ہے۔یہی بات ظفر احمد تھانوی دیوبندی نےقواعد فی علوم الحدیث میں ذکر کی ہے اس حدیث سے صراحتاًمعلوم ہواکہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مریض تھے اور گدھے پر سوار ہوکر آئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں جب دیکھا کہ وہ مسجد کے قریب آچکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انصار کو انہیں گدھے سے اُتارنے کے لیے حکم دیا تھا نہ کہ اپنی جگہ کھڑے ہونے کا ۔علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی تعظیم کے لیے قیام کا حکم دے بھی کیسے سکتے تھے؟جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے لیے تعظیمی قیام بھی مکروہ سمجھتے تھے جیساکہ ترمذی کی حدیث میں اوپر ذکر ہوچکا ہے۔(مجلۃ الدعوۃاگست 1999ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔العقائد و التاریخ۔صفحہ نمبر 57

محدث فتویٰ

تبصرے