سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(553) حیوانات کے خوبصورت مجسمے

  • 20816
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 765

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ مختلف دھاتوں سے حیوانات کے مجسمے بنا کر انہیں پالش اور رنگ روغن کر کے اپنے گھروں ، گاڑیوں میں لٹکایا جاتا ہے ، اس سے مراد صرف خوبصورتی اور زیب و زینت ہوتا ہے، اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عربی زبان میں اس قسم کے مجسمے کو تماثیل کہا جاتا ہے ، یہ تماثیل اور مجسمے شرک کا راستہ ہیں، اس لئے شریعت نے اسے بند کیا ہے۔ لوگ اپنے لیڈروں اور محبوب لوگوں کے مختلف چیزوں سے مجسمے بنا کر بڑے بڑے راستوں اور چوکوں میں نصب کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف دھاتوں سے حیوانات کے مجسمے بنا کر ڈرائنگ روم یا گاڑی میں سجا دیتے ہیں ، چونکہ شرک کے لئے یہ ایک چور دروازہ ہے اس لئے شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا اور مجسمے پڑے ہوں۔‘‘ [1]

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی ابتدائی طور پر اسی قسم کے مجسموں کی محبت میں گرفتار تھی ، کچھ دیر بعد وہ اللہ کے مقابلہ میں انکی عبادت کرنے لگے، نوح علیہ السلام نے اس عمل کی پرزور انداز میں تردید فرمائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تو قرآن کی صراحت ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’ یہ مورتیاں اور مجسمے کیا ہیں جن کے سامنے تم بندگی کے لئے بیٹھے رہتے ہو؟ ‘‘ [2]

بہر حال ہمارے ہاں بڑے بڑے لیڈروں کے مجسمے بنا کر چوراہوں میں انہیں نصب کیا جاتا ہے بعض اوقات تو پریڈ کے ذریعے انہیں’’سلامی‘‘ بھی دی جاتی ہے۔ اسی طرح مختلف جانوروں اور حیوانات کی مورتیاں بنا کر انہیں پالش اور روغن کر کے اپنی گاڑیوں اور گھروں کی زینت بنایا جاتا ہے ۔ شریعت کی نظر میں ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہیاج اسدی کو ایک مہم پر بھیجتے وقت فرمایا کہ میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا کہ کسی مورتی اور مجسمے کو نہ چھوڑوں مگر اسے مٹا ڈالوں ۔‘‘ [3]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تو یہ ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے لیکن ہم ان سے محبت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ اس قسم کی موتیوں کو اپنے گھروں یا گاڑیوں میں آویزاں کرے۔


[1] صحیح بخاری ، بدء الخلق : ۳۲۲۵۔

[2] الانبیاء : ۵۲۔

[3] صحیح مسلم ، الجنائز: ۹۶۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:478

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ