سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(545) لے پالک کی حقیقت

  • 20808
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 910

سوال

(545) لے پالک کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اولاد سے محروم ہوں، میں نے اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے اپنی بہن کے بچے کی پرورش کی ہے، اس کے ’’ب فارم ‘‘ میں بطور والد اپنا نام اور بطور والدہ اپنی بیوی کا نام لکھوا یا ہے ، شرعی طور پر ہمیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 دور جاہلیت میں غلط دستور رائج تھا کہ لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیا جاتا تھا اور اسے نقلی باپ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا ، اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیات نازل کی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ ‘‘[1]

یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا لے پالک بیٹا قرار دیا اور لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس غلط رسم کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تم ان منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو، اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ ‘‘ [2]

جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا تھا، ہاں اگر کوئی دوسرے برخوردار کو پیار و محبت سے بیٹا کہہ دے تو اس میں چنداں حرج کی بات نہیں۔ حرج اس وقت ہے جب کسی لے پالک کو حقیقی بیٹے کے حقوق دیے دیئے جائیں جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے کہ سائل نے لے پالک کے والد کی جگہ اپنا نام اور اس کی والدہ کی جگہ اپنی بیوی کا نام لکھوایا ہے حالانکہ وہ اس کا حقیقی باپ اور اس کی بیوی اس کی حقیقی ماں نہیں۔ ایسا کرنا قرآن کریم کے ایک صریح حکم کی خلاف ورزی ہے، ایک مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ دانستہ طور پر اللہ کے حکم کی پروانہ کرے۔ باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے لے پالک پید اہوا ہے اور ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے، اس کے علاوہ نہ کوئی اس کا حقیقی باپ بن سکتا ہے اور نہ کوئی دوسری عورت اس کی ماں بن سکتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کریں، کسی دوسرے شخص کی طرف اس کی نسبت نہ کریں۔ اسی طرح لے پالک کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت نہ کرے۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نےد وسرے شخص کو دانستہ طور پر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہو گیا۔ ‘‘[3]

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے حقیقی باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے۔ ‘‘[4]

مذکورہ آیت اور درج بالا آحادیث کی روشنی میں سائل کو اپنے اس اقدام پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس قدرسنگین جرم کا مرتکب ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] الاحزاب: ۴۔

[2] الاحزاب : ۵۔

[3] صحیح بخاری ، المناقب : ۳۵۰۸۔

[4] صحیح بخاری ، المناقب : ۳۵۰۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:471

محدث فتویٰ

تبصرے