السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی خدمت گزاری کو بہت پسند کیا ہے بلکہ باپ پر اسے ترجیح دی ہے، اس کی کیا وجہ ہے ۔ کیا قرآن و حدیث میں اس کی صراحت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی خدمت کو انسان کی سعادت اور خوش بختی کی علامت قرار دیا ہے کیونکہ ماں، اولاد کے سلسلہ میں بہت تکلیف برداشت کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا ارشاد موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَ وَضَعَتْہُ کُرْھًا ﴾[1]
’’ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف سے اسے جنم دیا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں نے حمل ، وضع حمل، دودھ پلانے، دودھ چھڑانے اور پرورش و تربیت کے سلسلہ میں بہت سی مشقتوں اور صعوبتوں کو برداشت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت کے بارے میں ماں کے حق کو تین بار بیان کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ ‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تیری ماں ‘‘ اس نے عرض کیا:
’’ پھر کون‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ تیری ماں ‘‘ اس نے عرض کیا : پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’ تیری ماں ‘‘ اس نے پھر عرض کیا، اس کے بعد کون حقدار ہے تو آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ ‘‘[2]
اس حدیث میں صراحت ہے کہ خدمت کے سلسلہ میں والدہ کا حق زیادہ ہے، کیونکہ اس نے اولاد کے متعلق تکلیف زیادہ برداشت کی جیسا کہ قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] الاحقاف: ۱۵۔
[2] صحیح مسلم، البر : ۲۵۴۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب