السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں یہ معمول ہے کہ اگر کسی کی بات نہیں سنی جاتی یا کسی کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ہو جائے تو وہ اپنی بات منوانے یا اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے بھوک ہڑتال کرتا ہے، اس طرح وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراتا ہے، اس بھوک ہڑتال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، ان میں سے ایک اس کا اپنا وجود ہے جس کی حفاظت کرنا فرض ہے۔ پھر اس کی توانائی کو برقرار رکھنے کے لئے غذا کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ے اور ہر اس کام سے منع کیا گیا ہے جس کے انجام دینے سے انسانی وجود کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ساری رات کا قیام اور مسلسل روزے رکھا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ ایسا مت کرو ، کیونکہ یہ عمل آنکھوں کے ضعف اور بدن کی کمزوری کا باعث ہے۔ ‘‘[1]
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو اس کے بدن کی کمزوری کاباعث ہو۔ لہٰذا سلامی نقطہ نظر سے بھوک ہڑتال ایک غیر اسلامی حرکت ہے جو کسی بھی مسلمان کے شایان شان نہیں۔ متعدد فقہاء نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ غذا پر قدرت کے باوجود اگر کوئی کھاتا پیتا نہیں تا آنکہ اس کی موت واقع ہو جائے تو ایسا کرنا گناہ اور باعث عذاب ہے۔ کیونکہ اسے ایک قسم کی خود کشی کہا جاتا ہے جبکہ احادیث میں خودکشی کرنے پر بہت وعید آئی ہے اور خوکشی کرنے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’ جس نے کسی چیز کے ذریعے اپنے آپ کو قتل کیا، اسے اسی چیز کے ساتھ قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ ‘‘[2]
ایک روایت میں ہے کہ جہنم میں وہ اسی قسم کی سزا سے دو چار کیا جائے گا۔ [3]
ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس کسی نے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کیا وہ جہنم میں اسی طرح بلندی سے چھلانگ لگا کر مرتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خود کو ختم کر لیا وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے زہر پی کر مرتا رہے گا اور جس نے کسی ہتھیار سے خود کشی کی وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے اسی ہتھیار سے خود کو مارتا رہے گا۔[4]
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خوکشی ایک حرام فعل ہے اور بھوک ہڑتال بھی خودکشی کا پیش خیمہ ہے ، لہٰذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن کریم میں بھی ایسے اقدام سے منع کیا گیا ہے جو اس کی موت کا باعث ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘[5]
دوسرے مقام پر فرمایا کہ تم خود کو قتل نہ کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بہت شفقت کرنے والا ہے۔ ‘‘[6]
ان قرآن آیات اور احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف ہے کہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنی صحیح بات منوانے کے لئےبھوک ہڑتا ل کے بجائے تنقید و احتجاج کا کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جائے، اپنے مقدمہ کو عدالت میں یا مسلمانوں کی پنچایت میں پیش کرنا چاہیے۔ پرامن اور جائز طریقہ سے اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئےجد وجہد کرنا مباح ہے لیکن اس کے لئے بھوک ہڑتال کا سہارا لینا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری ، الصوم : ۱۹۷۹
[2] صحیح بخاری ، الادب : ۶۰۴۷۔
[3] صحیح بخاری ، الادب : ۶۱۰۵۔
[4] صحیح بخاری ، اللباس: ۵۷۷۸۔
[5] البقرة: ۱۹۵۔
[6] النساء : ۲۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب