السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں ہے: ’’ جو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے ، یہ حدیث کہاں ہے ، اس کی نشاندہی کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں والد گرامی کی بہت اہمیت ہے، اس سے رو گردانی کو کفر قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ اپنے باپ دادا سے بے رغبتیکا اظہار نہ کرو، جب انسان اپنے باپ سے بے رغبتی کرتا ہے تو اس کا یہ کام کفر ہے۔ ‘‘[1] اس سے بڑھ کر جرم یہ ہے کہ انسان اپنے اصل باپ کے سوا کسی دوسرے آدمی کو اپنا باپ قرار دے لے، اس کے متعلق حدیث میں بہت وعید آئی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنے والد کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو پانچ صد سال کے فاصلے سے محسوس ہو گی۔‘‘[2]
جنت کی خوشبو نہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوگا بلکہ جنت کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے گا ، یعنی وہ جہنم میں جائے گا۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو باپ بنانے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دوسرا اس کا باپ نہیں، اس پر جنت حرام ہے۔[3]
ایک روایت میں اسے اللہ کے ساتھ کفر قرار دیا گیا ہے۔ [4] دوسری روایت میں اسے بہت بڑا بہتان کہا گیا ہے۔[5]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔‘‘ [6]
بعض دفعہ بہو اپنے سسر کو ’’ابو‘‘ کہہ دیتی ہے یا پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دیا جاتا ہے ، یہ اس وعید میں شامل نہیں ۔ حرمت اس وقت ہے جب اس مصنوعی رشتے کو اصلی رشتے کا مقام دینے کی کوشش کی جائے یا باپ کو حقیر خیال کرتے ہوئے اپنی نسبت کسی دوسرے کی طرف کی جائے۔ بہر حال سوال میں ذکر کردہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں آئی ہے جس کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔
[1] صحیح بخاری ، الفرائض : ۶۷۶۸۔
[2] ابن ماجہ ، الحدود: ۲۶۱۱۔
[3] صحیح بخاری ، الفرائض : ۶۷۶۶۔
[4] صحیح بخاری، المناقب :۳۵۰۸۔
[5] صحیح بخاری، المناقب : ۳۵۰۹۔
[6] ابن ماجه ، الحدود: ۲۶۰۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب