السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری شادی جنوری ۲۰۱۲ء کے آغاز میں ہوئی ، جولائی کے وسط میں بیوی نے بچہ جنم دیا ، میں شکوک و شبہات کا شکار ہوں، مجھے کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محض شکوک و شبہات کی بناء پر بچے کا انکار کرنا شرعاً جائز نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا کہ میری بیوی نے ایک سیاہ بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں اس کا انکار کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں! آپ نے فرمایا: ان کا رنگ کیسا ہے؟ جواب دیا وہ سرخ رنگ کے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ والا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں ، ان میں خاکستری رنگ والے اونٹ بھی ہیں، آپ نے فرمایا: وہ کہاں سے آ گئے ؟ جواب دیا شاید ان کے آباء و اجداد کی خونی رگ نے جوش مارا ہو اور ان کا رنگ خاکستری ہو گیا ہو، آپ نے فرمایا کہ تیرےبیٹے کے ساتھ شاید یہی معاملہ ہوا ہو، آپ نے اسے انکار کرنے کی اجازت نہیں دی۔[1]
صورت مسؤلہ میں بھی اسی طرح کے شکوک و شبہات ہیں ، شریعت میں اگرشادی کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو جائے تو اسے صحیح النسب تسلیم کیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اس کا واضح اشارہ ملتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں ایک مقام پر حمل اور دودھ کی مدت تیس ماہ بیان کی گئی ہے: ’’ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔‘‘[2]
اس آیت کریمہ میں حمل اور مدت رضاعت کا بیان ہے جبکہ دوسری آیات سے پتہ چلتا ہے کہ کامل مدت رضاعت دو سال ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ جو شخص مدت رضاعت پوری کرنا چاہے وہ جان لے کہ وہ دو سال ہے۔‘‘[3]
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے کیونکہ مدت رضاعت چوبیس ماہ ( دو سال ) تیس ماہ سے منہا کر دی جائے تو باقی مدت حمل چھ ماہ رہ جاتی ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر فتح القدیر میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ نیز حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی رائےہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے۔ صورت مسؤلہ میں عورت نے شادی کے سات ماہ بعد بچہ جنم دیا ہے تو یہ بچہ صحیح النسب ہے خواہ مخواہ شکوک و شبہات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری ، الاعتصام : ۷۳۱۴۔
[2] الاحقاف : ۱۵۔
[3] البقرة: ۳۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب