سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(531) مشکوک کمائی سے تیار کردہ کھانا

  • 20794
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 852

سوال

(531) مشکوک کمائی سے تیار کردہ کھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست تجارت پیشہ ہیں، لیکن میرے خیال کے مطابق وہ غلط کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی کمائی حرام نہیں تو مشکوک ضرور ہے، کیا میں جب کبھی اس کے گھر جاؤں تو اس کے گھر سے کھا پی لیا کروں، قرآن و حدیث کی روشنی میں میری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرکسی کی کمائی خاص حرام کی ہے تو اس کے ہاں کھانا پینا جائز نہیں لیکن مشکوک کمائی کے معاملہ میں اس قدر سختی کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ میرا ایک پڑوسی ہے، میرے خیال کے مطابق اس کا مال خبیث یا حرام ہے ، وہ مجھے بعض اوقات کھانے کی دعوت دے دیتا ہے ، کیا مجھے دعوت قبول کرنی چاہیے؟ واضح رہے کہ اگر میں اس کے ہاں نہ جاؤں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اس کے گھر جاؤ اور اس کی دعوت کو قبول کرو ، اس کا گناہ صرف اسی پر ہو گا۔ ‘‘[1]

ہاں اگر معلوم ہو جائے کہ کھانا حرام مال سے تیار کیا گیا ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور اسے تناول نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ، جب کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ گوشت ایسی بکری کا ہے جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کھانا خود نہیں کھایا بلکہ فرمایا کہ یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دیا جائے۔ [2]

بہر حال ایسے دوست کا بائیکاٹ نہ کیا جائے بلکہ اسے قرآن و حدیث سے وعظ کرتے رہنا چاہیے ممکن ہے کہ وعظ و نصیحت کرنے سے وہ غلط کاروبار سے توبہ کر لے۔ ہاں اگر ایسے آدمی کی دعوت قبول نہ کرنے میں یہ امکان ہو کہ وہ توبہ کر کے غلط کاروبار چھوڑ دے گا تو اچھے اندز میں بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ اسے احساس ہو کہ میرے غلط کام کرنے پر میرے دوست گھر آنا جانا چھوڑ دیں گے ، آدمی کو موقع محل دیکھ کر کوئی مناسب اقدام کرنا چاہیے۔


[1] بیہقی ص ۳۳۵ ج۵۔

[2] ابو داود ، البیوع : ۳۳۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:460

محدث فتویٰ

تبصرے