السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے ہونٹ پیدائشی طور پر نقص زدہ ہیں جس کی بنا پر کھانے پینے اور بات کرنے میں بہت دقت محسوس ہوتی ہے ، اس سلسلہ میں جب ڈاکٹروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ چہرے کی پلاسٹک سرجری ضروری ہے اور اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ چہرے پر بال نہ ہوں جبکہ میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، اب میں بہت پریشان ہوں کہ جس داڑھی کو میں نے سنت سمجھ کر رکھاتھا ، اسے کیوں منڈواؤں ؟ اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قدرت کا نظام ہے کہ عام طور پر جب بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو بالکل صحیح و سالم ہوتا ہے لیکن بعض اوقات غذائی مواد کی کمی یا کسی کیمیاوی تبدیلی کی وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے ، یہ نقص کبھی تو قابل اصلاح ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے قابل نہیں ہوتا بعض بچوں کے پاؤں پیدائشی ٹیڑھےہوتے ہیں جنہیں بذریعہ علاج سیدھا کیا جا سکتا ہے، بعض اوقات بچے کے دونوں ہونٹ جڑے ہوتے ہیں ، انہیں بھی آپریشن کے ذریعے الگ کیا جا سکتا ہے، بعض دفعہ انسان موتیا پڑنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو جاتا ہے تو آپریشن کے ذریعے اس کی بینائی بحال کی جا سکتی ہے۔
صورت مسؤلہ میں سائل بھی اسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہے ، شرعاً اس طرح کے علاج میں کوئی قباحت نہیں اور جدید طب سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کرائے ، اس میں شرعی طور پر کوئی حرج نہیں۔
اگرچہ آج کل اس جدید طریقہ علاج سے غلط فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ’’ فیشن ایبل اور غلط کار ‘‘ عورتوں کے چہروں پر عمر رسیدگی یا اپنے دھندے کی نحوست کی بنا پر جھریاں پڑ جاتی ہیں تو وہ اپنے حسن کو بحال کرانے کے لئے پلاسٹک سرجری کا سہارا لیتی ہیں، ہمارے نزدیک ایسا کرنا جرم اور حرام ہے کیونکہ اس سے دھوکہ دہی مقصود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایسی مجبوری نہیں کہ اس کی خاطر فطرت سے چھیڑ چھاڑ کی جائے۔
البتہ صورت مسؤلہ میں ایسی مجبوری ہے کہ جس کے پیش نظر چہرے کی پلاسٹک سرجری کرانا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کھانے پینے اور بات چیت کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
باقی رہا داڑھی کا مسئلہ تو اس کا انحصار نیت پر ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالت میں اس کے متعلق باز پرس نہیں کریں گے اور اس کی بھی امید ہے کہ علاج کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے دوبارہ اُگا دیں گے۔ ’’ وما ذلك علی اللہ بعزیز‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب