سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(522) کیا ڈاکو کو اپنا مال دے دیا جائے؟

  • 20785
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1040

سوال

(522) کیا ڈاکو کو اپنا مال دے دیا جائے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل راہ زنی ، ڈکیتی اور چوری چکاری کا دور ہے ، بعض دفعہ گھر میں ڈاکو آجاتے ہیں اور مال و دولت کا مطالبہ کرتے ہیں ، اگرمال وغیرہ نہ دیا جائے تو مارتے پیٹتے ہیں، اگر مال دے دیا جائے تو ضمیر ملامت کرتا ہے، ایسے حالات میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کیا ہیں، اس سلسلہ میں تفصیل کے ساتھ راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 موجودہ حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کے ساتھ ساتھ اپنے حفاظتی اقدامات کو نظر انداز نہ کریں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا ، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی آدمی میرا مال چھیننا چاہے تو ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسے اپنا مال نہ دے ، اس نے عرض کیا اگر وہ میرے ساتھ جنگ و قتال پر اتر آئے ؟ آپ نے فرمایا: تو بھی اس کے ساتھ جنگ و قتال کر، اس نے عرض کیا اگر اس نے مجھے قتل کر دیا تو؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے حالات میں تو شہید ہو گا، اس نے عرض کیا اگر میں اسے قتل کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تو اسے قتل کر دے تو وہ آگ میں ہے۔‘‘ [1]

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر والوں کے لئے عزیمت کا یہی راستہ ہے کہ وہ ڈاکو کو اپنا مال نہ دیں، بلکہ اس سے جنگ و قتال کیا جائے، اگر ایسے حالات میں گھر والا مارا گیا تو وہ شہید اور اگر ڈاکو مارا گیا تو وہ جہنم میں اور اس کا خون ضائع ہے لیکن اگر اس کے ساتھ جنگ و قتال کرنے سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو مثلاً وہ گھر والوں کا اکیلا ہی سرپرست ہے اور اہل خانہ میں اور کوئی لواحقین کی نگہداشت کرنے والا نہیں یا وہ اہل علم سے ہے اور اپنے علم سے لوگوں کی تشنگی دور کرتا ہے تو ایسے حالات میں رخصت ہے کہ وہ اپنا مال اس کے حوالے کر کے اپنی جان اور عزت و ناموس کو محفوظ کرے، اس بات کا اندازہ وہ خود لگا سکتا ہے کہ اس نے کونسا راستہ اختیار کرنا ہے ، عزیمت کا یا رخصت سے فائدہ اٹھانا ہے۔


[1] صحیح مسلم ، الایمان : ۲۲۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:454

محدث فتویٰ

تبصرے