سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(521) دیور تو موت ہے

  • 20784
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2199

سوال

(521) دیور تو موت ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری سے فرمایا تھا : ’’ دیور تو موت ہے‘‘ اس کا کیا معنی ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح موت سے بچنا ممکن نہیں اس طرح دیور کا حال ہے، لہٰذا اس سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ، براہ کرم اس حدیث کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سوال میں ذکر کردہ حدیث کا مکمل متن حسب ذیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کیا کرو، ایک انصاری آدمی کہنے لگا، یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’دیور تو موت ہے۔‘‘[1]  

واضح رہے کہ ’’حمو‘‘ سے مراد صرف خاوند کا بھائی ’’دیور‘‘ ہی نہیں بلکہ مطلق طور پر خاوند کے رشتہ دار مراد ہیں یعنی اس کے آباؤ و اجداد اور اولاد کے علاوہ دوسرے رشتہ دار ہیں مثلاً بھائی ، چچا، بھتیجے اور چچا کے بیٹے ( کزن ) وغیرہ، یہ سب عورت کے لئے اجنبی ہیں، عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے۔ سوال میں ذکر کردہ حدیث کا مفہوم صحیح نہیں کہ اس سے اجتناب نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس سے پردہ نہ کیا جائے۔رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے زیادہ خاوند کے رشتہ داروں سے زیادہ خدشہ اور فتنے میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے اس لئے کہ عورت کے پاس جانا اور اس سے خلوت کرنا اُں کے لئے آسانی کے ساتھ ممکن ہے کیونکہ گھر میں ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا، اس کے مقابلے میں اجنبی آدمی کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہ گھر میں بلا اجازت نہیں آ سکتا۔

موقع کی مناسبت سے ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے مشاہدہ کے مطابق کچھ دیور ایسے ہوتے ہیں جو عورت کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ نہیں کرتے بلکہ اس کی چادر کو تار تار کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ان کی صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ، لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی عزت و ناموس کے تحفظ کے پیش نظر دیور کے ساتھ بے تکلف ہونے سے اجتناب کرے اور اپنے پردے کو کسی صورت میں قربان نہ کرے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری ، النکاح : ۲۵۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:454

محدث فتویٰ

تبصرے